طارق احمدمرزا
عدالت عظمیٰ نے مؤرخہ چھ فروری کو سنہ 2017کے فیض آباد دھرنے سے متعلق ازخود نوٹس کو نبٹاتے ہوئے پاک فوج کے ذیلی ادارہ انٹرسروسزانٹیلی جنیس(آئی ایس آئی)کوتنبیہہ کرتے ہوئے کہاہے کہ آئی ایس آئی کو سیاست اورمیڈیا سے دور رہ کرآئین کے مطابق اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو بجالانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔
فیصلہ کے پیراگراف ۴۲ میں زیرعنوان’’ انٹیلی جنس ایجنسیز‘‘لکھا ہے کہ (آزاد ترجمہ) :۔
۔’’آئی ایس آئی کی جمع کروائی ہوئی رپورٹ میں تحریک لبیک پاکستان کی لیڈرشپ کے ذرائع آمدنی،مقام ملازمت،ان کی تنظیم کی فنڈنگ وغیرہ کے بارہ میں کچھ نہیں بتایاگیاتھا۔بعدازاں ہم نے پوچھا کہ کیا انہوں(یعنی ٹی ایل پی کے لیڈروں)نے کوئی انکم ٹیکس جمع کروایا ہے یا ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ ہے تو اس کے جواب میں آئی ایس آئی نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی معلومات اکھٹا کرنا ان کے دائرہ کارمیں نہیں آتا لہٰذہ وہ ان سوالات کا جواب دینے سے قاصرہیں۔
چنانچہ ہم نے جناب اے جی پی (اٹارنی جنرل آف پاکستان ) سے کہاکہ وہ آئی ایس آئی کے اختیارات(مینڈیٹ) اور اس کوچلانے والے قوانین اورقواعدوضوابط کے بارہ میں آگاہ کریں۔جناب اے جی پی نے مہربندلفافہ میں ایک دستاویزجمع کروائی جس میں آئی ایس آئی کوتفویض کردہ مینڈیٹ کی تفصیل درج تھی لیکن ساتھ ہی یہ استدعاکی گئی تھی کہ اس مینڈیٹ کو افشاء نہ کیا جائے۔
آئی ایس آئی کے اس مینڈیٹ کوخفیہ رکھنے کی اس سے زیادہ کوئی وجہ نہیں بتائی گئی کہ دوسرے ملکوں میں ایسا ہی ہوتاہے ،لیکن ایسے کسی ایک ملک کا بھی نام نہیں بتایا جہاں ایساہوتاہے۔
اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ دیکھیں کون سے دوسرے ممالک ہیں جہاں خفیہ اداروں کے مینڈیٹ کو صیغہ رازمیں رکھا جاتاہے۔
پیراگراف ۴۳:۔
برطانیہ،امریکہ،نیوزی لینڈ،آسٹریلیا اور ناروے میں ان کی خفیہ ایجنسیوں کے بارہ میں قوانین موجودہیں اور یہ تمام قوانین ان ایجنسیوں کوتفویض شدہ مینڈیٹ کابھی بتاتے ہیں۔
ان ممالک کے قوانین کو نقل کرنے کے بعدعدالت نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ کیس کے اس حصہ کو حکومت نے جس طرح ہینڈل کیاہے وہ مایوس کن ہے۔کسی ایشوکو نظراندازکردینا اسے ختم نہیں کرسکتا۔
آئی ایس آئی کے بارہ میں یہ تأثرپھیلناکہ وہ سیاسی یا دیگرکسی ایسے معاملہ میں ملوث ہے یا اس پہ اثراندازرہی ہے جس سے اسے کوئی سروکار نہیں ہوناچاہئے تو اس تأثرکو نظراندازنہیں کیا جاسکتا۔
پیراگراف ۴۴:۔
ائرمارشل اصغرخان مرحوم،جو پاکستان ائرفورس کے کم عمرترین سربراہ تھے،یہ تأثررکھتے تھے کہ آئی ایس آئی اور مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد نے ایک پولیٹیکل ایجنڈہ پہ کام کیاتھا۔
انہوں نے اس بارہ میں اس عدالت کو اپنی تشویش سے آگاہ کیا تھا۔
عدالت نے اس معاملہ کوآئین کے آرٹیکل ۱۸۴(۳) کے تحت اٹھایاکیونکہ یہ معاملہ پبلک کے مفادکی رو سے اہمیت کاحامل تھا۔
عدالت نے اس کیس میں اس عہد کی طرف توجہ دلائی تھی جس کے مطابق مسلح افواج میں شامل ہرفردپاکستان سے وفاداری اور اس کے آئین کی پاسداری کی قسم اٹھاتاہے اورکہتا ہے کہ میں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا۔
عدالت نے اصغرخان کیس کافیصلہ سناتے ہوئے لکھا تھاکہ :۔
Involvement of the officers/members of secret agencies i.e.
ISI, MI, IB, etc. in unlawful activities, individually or
collectively calls for strict action being, violative of oath of
their offices, and if involved, they are liable to be dealt
with under the Constitution and the Law.
پیراگراف ۴۵:۔
ائرمارشل اصغرخان کیس کا فیصلہ آجانے کے بعدآئی ایس آئی اور مسلح افواج کے ممبران کوسیاست،میڈیا اور دیگر’’ غیرقانونی سرگرمیوں‘‘ میں ملوث نہیں ہونا چاہئے تھا۔اس کے برعکس ٹی ایل پی دھرنے کے شرکاء باوردی اشخاص (مین ان یونیفارم )سے براہ راست کیش وصول کرتے نظرآئے جس سے ان کے بارے میں قائم شدہ تأثر قوی ترہوگیا۔
اسی طرح آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹرجنرل سیاسی مبصر بن کر یہ بیان دے چکے ہیں کہ ’’تاریخ ثابت کرے گی کہ 2018ء کے الیکشن شفاف تھے‘‘۔
مسلح افواج اور وہ تمام ایجنسیاں جن میں مسلح افواج سے وابستہ افرادکام کرتے ہیں بشمول آئی ایس آئی،ملٹری انٹیلیجنس اور آئی ایس پی آر،پاکستان کے ،لہٰذہ تمام پاکستانیوں کے ،خادم ہیں ۔انہیں اپنے بارہ میں ہرگزاس قسم کاتأثرقائم نہیں ہونے دینا چاہئے کہ وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت،دھڑے یا سیاستدان کے حمایتی ہیں۔
اگرمسلح افواج کا کوئی فردکسی بھی طرح سے سیاست میں ملوث ہوتاہے یا میڈیا پہ اثراندازہوتا ہے تو وہ مسلح افواج کی ساکھ اور پیشہ ورانہ حیثیت کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوتا ہے۔
آئین میں بڑی وضاحت کے ساتھ مسلح افواج کے فرائض بیان کئے گئے ہیں۔وہ ’’وفاقی حکومت کی ہدایات پر بیرونی جارحیت یا جنگ کی صورت میںملک کادفاع کریں گی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے بوقت ضرورت سول حکومت کے کہنے پراس کی مددکریں گی‘‘ ۔
ہمیں ان معدودے چند افرادکو، جوغیرقانونی سرگرمیوں میں مبتلا ہوتے ہیں،ہرگزیہ اجازت نہیں دینی چاہئے کہ وہ ان تمام جوانمرد وں کی عزت اورشہرت داؤ پہ لگا دیں جو دوسروں کی خاطراپنی جانوں کوقربان کردیتے ہیں۔
پیراگراف ۴۶:۔
آئی ایس آئی نے کہا ہے کہ وہ تشددپہ اکسانے والوں یاپر تشددکارروائیوں میں ملوث افراد کی مالی سرگرمیوں پہ نظررکھنے سے قاصرہیں۔حالانکہ دہشت گردی کا جہاں تک تعلق ہے تواینٹی ٹیررزم ایکٹ ۱۹۹۷ کے تحت خفیہ ایجنسیوں،مسلح افواج اور سول آرمڈفورسزکے کردار کا بھی تعین کیاجاچکا ہے۔خفیہ ایجنسیاں تشدد اور نفرت کوپروان چڑھانے والوں کو قطعاً نظراندازنہ کریں۔
متشددنظریات اورکارروائیوں پہ اکسانے والوں کی نگرانی یابیخ کنی نہ کی جائے تو وقت گزرنے کے ساتھ یہ ریاست مخالف عناصر کا روپ دھارلیتے اور عوام الناس کو اپنی دہشت کانشانہ بناناشروع کردیتے ہیں۔
زیادتی،نفرت اور تشددکی راہ اپنانے والوں کوتوریاست،اس کی پولیس اورخفیہ ایجنسیوں سے خوفزدہ رہناچاہئے، چہ جائے کہ ان کی سرپرستی کی جارہی ہو۔
پیراگراف ۴۷:۔
انٹرسروسز کی ڈائریکٹریٹ جناب لیاقت علی خان کے دورحکومت میں قائم کی گئی تھی۔اس کے پہلے سربراہ ،جو ڈائریکٹرآف انٹیلی جنس کہلاتے تھے ،بریگیڈئر ایس شاہد حامدتھے۔بہت ہی محدودوسائل کے باوجود وہ ڈائریکٹریٹ اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں کامیاب رہی۔اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ پیشہ ورانہ رویہ اپنائے ہوئے تھی اوراس کو جو مینڈیٹ سونپا گیا تھا(جس کا ہمیں علم ہے)وہ سختی کے ساتھ اس پر کاربندتھی۔اس کے فرائض منصبی میں نہ تو سیاست شامل تھی نہ میڈیا۔
نوزائدہ مملکت پاکستان ،جس میں اس وقت کا مشرقی پاکستان بھی شامل تھا،جلد ہی اقوام عالم کی نظروں میں ایک معزز مقام حاصل کرگیا۔
جب ادارے آئین کی بتائی ہوئی حدودکے اندر رہتے ہیں اور ان پر نظربھی رکھی جاتی ہے توشہریوں کو تحفظ اور ملک کو ترقی نصیب ہوتی ہے۔
مصیبت ان لوگوں کے آنے سے شروع ہوتی ہے جو خودساختہ ’’ نجات دہندہ‘‘ بن بیٹھتے ہیں۔ انہیں یہ باورکروانالازمی ہے کہ وہ خدانہیں۔حاکمیت صرف خداکی ہے وہ اسے اپنے بندوں کومحض ایک امانت کے طورپر دیتاہے۔
قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان کے لئے صرف اور صرف جمہوری نظام پسندفرمایاتھا،نہ کہ نوکرشاہی ،نہ ہی مطلق العنانی اور نہ ہی آمریت ۔
ہمیں اپنے قائدکے نظریات اور آئین سے چمٹے رہناچاہئے‘‘۔
(مکمل انگریزی متن کے لئے دیکھئے http://www.supremecourt.gov.pk/web/page.asp?id=2971۔ )
قارئین کرام یہ عدالتی فیصلہ ۵۳ پیراگرافوں پر مشتمل ہے اور اس میں اور بھی بہت سی اچھی اچھی باتیں کی گئی ہیں۔جن میں قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے آزادی اظہار،آزادی تقریر ، آزادی ضمیراور پرامن احتجاج،جلسہ وغیرہ کو ہر شہری کا بنیادی انسانی اور آئینی حق تسلیم کیا گیاہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے اس فیصلہ کو کتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔
یاد رکھیں عدالت نے کہا ہے کہ’’ کسی ایشوکونظراندازکردینا اسے ختم نہیں کرسکتا‘‘۔
کیونکہ کہنے کوتو’’ نیاپاکستان‘‘ بھی بن چکا ہے لیکن ژوب میںپروفیسرارمان لونی کی مبینہ کسٹوڈیل ڈیتھ(دوران تحویل ہلاکت) اور اس کے بعد کے پیداہونے والے حالات کو ریاستی ادارے جس طرح ہینڈل کررہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے توکچھ بھی تونیا نہیں لگ رہا۔نوکرشاہی بھی وہی ہے،مطلق العنانی بھی وہی اور آمریت بھی وہی ہے۔
لگتا ہے ہم ایک نئے خودساختہ نجات دہندہ کے دور میں داخل ہو گئے ہیں۔
♦