بیرسٹر حمید باشانی
کشمیر میں موسم بہار کی آمد آمد ہے۔ پھول کھلنے اور پرندوں کے چہچانے کا موسم ہے۔ مگر اب کے یہ بہار اپنے جلو میں خوف اور جنگی جنون لائی ہے۔ بھارت میں کچھ لوگوں پر اس وقت جنگی جنون طاری ہے۔ جنگ باز قوتیں اس جنون کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ یہ جنون پھیلانے میں کئی قسم کے لوگ شامل ہیں۔ مگر ہندو قوم پرست اور شدت پسند قوتیں اس میں کئی امکانات دیکھتی ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ایک تو وہ ہندد قوم پرستی کا ایجنڈاآگے بڑھانا چاہتی ہیں اور آنے والے انتخابات میں اس کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ ووٹ سمیٹنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
جنگ تاریخ انسانی کاپرانا المیہ ہے۔ تاریخ کے ہر دور میں جنگ باز قوتیں مختلف اشکال میں موجود رہی ہیں۔ ان قوتوں ایک بیانیہ رہا ہے، جس کا اظہار مختلف الفاظ میں ہوتا رہاہے۔ تاریخ انسانی میں بے شمار جنگجو اور تشدد پسند حکمران گزرے۔ ان حکمرانوں نے بار بار اپنے ارد گرد کا امن برباد کیا۔ تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ معمولی معمولی باتوں پر جنگ کے میدان گرم کیے۔ لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ انسانی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کیے۔
صدیوں تک حکمران ہوس، زر، زمین، ہوس ملک گیری اور طاقت کی ہوس میں وحشت و بربریت کے اس کھیل میں مصروف رہے۔ جنگ کسی دور میں بھی کوئی خوشگوار عمل نہیں رہا۔ خواہ یہ جنگ کسی بھی مقصد کے لیے لڑی گئی ہو، اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نکلا ہو۔ جنگ ہر فریق کو زخم، دکھ اور مصائب دیتی رہی۔ اس میں فاتح و مفتوح سب شامل رہے ہیں۔
تاریخ میں بے شمار جنگیں مال غنیمت سمیٹنے یا توسیع پسندانہ عزائم کا نتیجہ تھیں۔ یہ جنگیں جیتنے والے تو جشن فتح بناتے تھے۔ کہ اس وقت کئی منظم گروہوں اور یاستوں کا یک بڑا ذریعہ آمدن یہ جنگیں اور اس کے نتیجے میں آنے والا مال غنمیت تھا۔ مال غنیمت میں سونے چاندی کے ساتھ ساتھ، زمین ، عورتیں بچے بھی شامل ہوتے، جنہیں فتح کے بعد لونڈیاں اور غلام بنالیا جاتاتھا۔
وحشت و بربریت کے باوجودہر زمانے میں ایسے لوگ موجود رہے، جو اس جنگ و جدل اور لوٹ مار خلاف تھے، جو عقل و انسانیت کی بات کرتے تھے، مگر ان وحشی ادوار میں ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔ یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں بیسویں صدی تک جاری رہا۔ بیسویں صدی تک پہنچنے تک یہ جنگیں مال غنیمت اور لونڈیوں کی جگہ منڈیوں ، طاقت اور قدرتی وسائل کی تقسیم کی جنگیں بن چکی تھیں۔
بیسویں صدی میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم منڈیوں کی تقسیم کی واضح مثالیں تھیں۔ ان جنگوں میں ماضی کے بر عکس جدید ٹیکنالوجی اور بیک وقت کئی ممالک کی فوجوں کی شمولیت کی وجہ سے بہت بڑا خون خرابہ ہوا۔ یہ جنگیں ایک ایسے وقت میں لڑیں گئیں، جب دنیا میں امن کی سوچ پیدا ہو رہی تھی۔ دنیا میں امن پسند تحریکیں شروع ہو چکی تھیں، جنگ کے خلاف نفرت اور امن کا شعور پیدا ہونا شروع ہو چکا تھا۔
اس شعور کے باوجودمگر حکمران طبقات نے یہ سامراجی جنگیں چھیڑنے اور ان کو جوازیت دینے کے لیے جنون کا ماحول پیدا کیا۔ یہ جنون اس حد تک بڑھ گیا کہ کئی مغربی ممالک کے بڑے بڑے امن پسند اور جنگ دشمن شاعر، ادیب و دانشور ان جنگوں میں عملی طور پر شریک ہونے پر مجبور ہوئے۔ کئی ان جنگوں کو وطن پرستی یا وطن دوستی کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ کئی ان کو انسانیت کی بقا کا مسئلہ بنا کر پیش کیا گیا۔ ا ن غیر منصفانہ سامراجی جنگوں میں شرکت پر مجبور ہونے والے کئی دانشور ان جنگوں میں حصہ لینے پر ساری زندگی معذرت اور تاسف کا اظہار کرتے رہے۔
اگرچہ جنگ میں بسا اوقات غیر سرکاری جنگجو گروہ اور تنظیمیں بھی شامل ہوتی رہی ہیں، لیکن اکثر جنگیں سرکاری اور ریاستی سطح پر لڑی جاتی رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے ایک سرکاری بیانیہ ترتیب دیا جاتا رہاہے۔ جہاں کسی مخالف قوم، ریاست یا گروہ کو دشمن یا خطرہ قرار دیا جاتا ہے، جس سے جنگ ایک ناگزیر ضرورت قرار دی جاتی ہے۔ اس بیانیے کی بنیاد پر عوام کی حمایت لی جاتی ہے ۔ یہ بیانیہ اتنا طاقت ور اور غالب حیثیت اختیار کر لیتا تھا کہ اکثریت اسے بلاچون و چرا تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہمارے زمانے میں ہو سکتا ہے کہ بیانیہ تخلیق کرنے اور پھیلانے کے طریقہ کار یا شکل میں تھوڑی تبدیلی آئی ہو، مگر بنیادی طور پر اب بھی ملکوں اور قوموں کے درمیان جنگ و امن کے سوال پر سرکاری خواہش اور اس خواہش پر مبنی بیانیہ جنگ کے لیے بنیادیں فراہم کرتا ہے۔
حالیہ برسوں کی انسانی تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ سال ۲۰۰۳ کے موسم بہار جب صدر بش اور اس کے ساتھیوں نے عراق پر حملے کافیصلہ کیا تو، ویپن آف ماس ڈسٹرکشن کا، بیانیہ سامنے آیا۔ حالاں کہ اس وقت دنیا میں کئی دوسرے ممالک ایسے تھے، جن کے پاس سچ مچ، ویپن اآف ماس ڈسٹریکشن، موجود تھے، اور وہ ان سے دوسروں کو دھمکاتے بھی تھے۔ امریکہ میں کچھ امن پسند اور جنگ مخالف دانشور ایسے تھے ، جنہوں نے اس بیانیے کے خلاف آواز اٹھائی، مگر امریکی عوام کی ایک بڑی اکثریت سرکاری بیانیہ قبول کرنے پر مجبورہوئی۔ جنگ مخالف لوگ یا تو خاموش ہوگئے یا ان کی آواز کو زیادہ پزیرائی نہ ملی۔
یہ الگ بات ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری بیانیہ غلط ثابت ہو گیا، اور اس ذیل میں ایسے انکشافات ہو ئے کہ خود سرکار کو سر عام اس کا عتراف کرنا پڑا کہ ان کی اطلاع اور بیانیہ غلط تھا۔ مگر اس اعتراف تک اتحادیوں کے ہاتھوں عراق کی تباہی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ اس لیے اس اعتراف پر کوئی خاص رد عمل ہوا، اور نہ ہی عراق پر نازل ہونے والی تباہی کا کوئی مداوا کیا جا سکتا تھا۔
پلوامہ دھمکاکے کے بعد بھارت کے اندر بھی کچھ اس طرح کا ردعمل ہواہے۔ اس دھماکے کی وجہ سے بھارت سرکار اور سماج کے اندر موجود ہندو قوم پرست، شدت پسند اور جنگ باز قوتوں کو بہت فائدہ ہوا۔ انہوں نے اس واقعے کو بنیاد بنا کر اپنا بیانیہ بڑی قوت سے آگے بڑھایا۔ اس دھماکے سے ملک کے اندرجو جذباتی فضا پیدا ہوئی اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہوں نے دو قسم کا ایجنڈا آگے بڑھایا ایک تو خود بھارتی ریاست و سرکار پر دباو کہ وہ رد عمل میں پاکستان کے خلاف کھلی طاقت کا استعمال کرے۔ ا علان جنگ کرے، جو بر صغیر میں جنگ باز قوتوں کا دیرانہ خواب رہا ہے۔ اور دوسرا اس فضا کو بنیاد بناکر بھارت کے اندر ایسا ماحول بنایا جائے، جس میں امن پسند اور انسان دوست قوتوں کو ہمیشہ کے لیے دیوار سے لگایا جائے۔
اس ایجنڈے کے دوسرے نقطے پر جنگ باز قوتوں کو خاطرخواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ بلا استثناپوری قوت سے جنگ باز قوتوں کو بیانیے کی حمایت پر مجبور ہو گئے۔ سماج میں عام سطح پر بھی ایسے اقدامات اور واقعات سامنے آئے، جو جنگ باز قوتوں کے ایجنڈے کو تقویت دینے کا موجب بنتے ہیں۔ ان میں جموں میں ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں پر حملے، بھارت میں کشمیری طلبہ اور دیگر کاروباری افراد کے ساتھ روا رکھا جانے ولا سلوک اور ایسے دوسرے واقعات شامل ہیں۔
اس طرح بر صغیر میں امن و دوستی کی بات کرنے والے لوگوں کو بڑی حد تک دیوار سے لگا دیا گیا۔ ایسی سیاسی جماعتیں جن کا ایجنڈا بر صغیر میں امن وآشتی رہا ہے، وہ بھی مجبورا خاموشی اختیار کرنے یا جنگ باز قوتوں کی ہاں میں ہاں ملانے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ وہ کفیت ہوتی ہے ، جس میں جنگ باز قوتوں کا بیانیہ ایک غالب بیانیہ بن جاتا ہے۔ اور جنگ مخالف قوتیں معذرت خوانہ رویہ اختیار کرنے اور مباحثے کے محاذ پر پسپائی اختیار کرنے پرپر مجبور ہوجاتی ہیں۔ بھارت میں اس وقت یہی ہو رہا ہے۔ میدان بلاشرکت غیرے جنگ باز قوتوں کے ہاتھ میں ہے۔ جس قوت سے اس وقت جنگی جنون کو ہوا دی جا رہی ہے، اس سے جنوبی ایشیا میں امن کی کو شدید دھچکہ لگے گا، اور جنگ باز قوتیں مضبوط ہوں گی۔ یہ جنوبی ایشیا کے امن خوشحالی کے لیے بری خبر ہے۔
♦