ریاست اور شہری کے درمیان تعلق کی اخلاقی، سیاسی اور قانونی بنیاد کیا ہے؟
آجکل دیکھنے میں آیا ہے کہ کچھ لوگ پی ٹی ایم سے بظاہر اپنی ہمدردی اور وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے پشتونوں کو یہ نصیحت کرتے نہیں تھکتے کہ ظلم پر مبنی ریاستی نظام اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کیخلاف آواز اٹھانا تو جائز ہے لیکن “ہماری” ریاست اور “ہمارے” اداروں سے بیک وقت مسلسل وفاداری کی تجدید بھی ضروری ہے۔ میں یہ منطق سمجھنے سے قاصر ہوں۔
ریاست محض اداروں کے مجموعے کا نام ہے۔ ریاست کوئی مقدس گائے نہیں اور نہ آسمان سے اترا ہوا کوئی صحیفہ ہے۔ افراد یعنی شہری یعنی انسان زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ریاست انسانوں کیلئیے بنی ہے نہ کہ انسان ریاست کیلئیے۔ پہلے تو یہ بات کلئیر ہونی چاہیے۔
دوسرا یہ کہ فرد اور ریاست کے درمیان تعلق آئین کی شکل میں ایک معاہدے پر قائم ہوتی ہے یا ہونی چاہئیے۔ اس حوالے سے سب سے پہلے تو ایک جائز معاہدے کیلئیے یہ ضروری ہے کہ یہ فریقین کے مابین آزاد منشا اور برابری کی بنیاد پر قائم ہو۔ دوسرا یہ کہ اس معاہدے کے تحت ریاست اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق دینے اور انکو تحفظ مہیا کرنے کا بیڑا اُٹھاتی ہے اور شہری جواباً ریاست سے وفاداری اور اسکے تحفظ کا حلف اُٹھاتے ہیں۔یعنی یہ معاہدہ یا آئین دونوں فریقین کے باہمی حقوق و فرائض کے مجموعے کا نام ہے۔
دوسرے لفظوں میں ریاست و آئین سے وفاداری یکطرفہ معاملہ نہیں ہے۔ اگر ریاست اور اسکے ادارے آئین کے مطابق اپنی ذمہ داری پورا کرنے میں ناکام ہوتے ہے تو یہ ایک فریق کی جانب سے اس بنیادی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ ایسی صورت میں شہری بھی ایسے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے اخلاقی اور سیاسی طور پر آزاد ہوجاتے ہیں۔ یقیناً ایسی صورت میں شہریوں سے ریاست کیساتھ مسلسل تجدیدِ وفا اور حب الوطنی کا اظہار کی امید رکھنا خام خیالی اور بیوقوفی کے سوا کچھ نہیں۔
کیا آئینِ پاکستان شہریوں اور خصوصاً اقلیتی اقوام کی مرضی اور منشا سے بنا ہے؟ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ اس سوال کا جواب منفی میں دیتی ہے۔ ریاستِ پاکستان ایک جبری الحاق کے سوا کچھ نہیں۔ تو کیا ایسی ریاست سے بغاوت کرنی چاہئیے یا اسے توڑنا چاہئیے اور اس سے الگ ہونا چاہئیے؟ ضروری نہیں (اگرچہ عوام یہ حق محفوظ رکھتے ہیں)۔ لیکن کم از کم عوام سے بحیثیتِ فریقِ معاہدہ یکطرفہ طور پر ایسی ریاست سے مسلسل تجدیدِ وفا اور حب الوطنی کی امید رکھنا بلکہ ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں۔
اقلیتی قوموں پر مسلط شدہ اس ریاست اور اسکے آئین کے تحت ہی پی ٹی ایم روزِ اوّل سے اپنے بنیادی حقوق حقوق کا مطالبہ کرتی رہی ہے۔ یہی کچھ امریکہ میں سیاہ فام امیر یکنوں کی سماجی حقوق کی تحریکوں نے کیا۔ امریکہ کا آئین انکے مرضی سے نہیں بلکہ سیاہ فام غلاموں کے مالک سفید فام مَردوں کی مرضی سے بنا تھا۔ یہ آئین اُسے بنانے والوں سفید فام اور سیاہ فام امیریکنوں کی مابین کسی معاہدے پر قائم نہیں تھا۔ لیکن اسکے باوجود سیاہ فام لیڈر مارٹن لوتھر کنگ نے سفید نسل سے انہی کے بنے ہوئے آئین کے تحت حقوق کی ایک کامیاب جدو جہد کی رہنمائی کی۔
منظور پاشتین بھی انتہائی عقلمندی اور دانشمندی سے وہی طریقہ اپنائے ہوئے ہے۔ وہ بجا طور پر کہتا ہے کہ اگر ریاست اور اسکے مقتدر ادارے آئین کو بیچ میں سے نکال پھینکیں گے تو پھر ریاست اور اسکے شہریوں کے درمیان تعلق جبر پر مبنی ہوگا اور انکے درمیان آقا و غلام کا رشتہ ہوگا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اقلیت قوموں اور ریاستِ پاکستان کے درمیان تعلق فی الوقت جبر پر ہی مبنی ہے۔
لیکن منظور پاشتین یہی کہتا رہا ہے کہ یہ تعلق جبر کی بجائے سیاسی اور اخلاقی طور پر معاہدے پر قائم ہو نا چاہیے۔ یہی بنگالیوں کا مطالبہ تھا۔ اُن “کم نسلوں” کی بات نہیں سنی گئی تو ملک ٹوٹا۔ منظور پاشتین اور پی ٹی ایم کی بات اگر نہ سنی گئی تو یہ ملک مزید ٹوٹنے سے کوئی طاقت نہیں بچا سکتا کیونکہ انسانی سیاسی تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ جبر پر مبنی نظام کو کبھی بھی دوام حاصل نہیں ہوتا۔
اس لئے پشتونوں کو بحیثیتِ ایک فریق اس جابر ریاست اور اس پر قابض جابر اداروں سے یکطرفہ محبت کا دم بھرنے اور اُن سے مسلسل تجدیدِ وفا کی نصیحت کرنے والے ناصحیں برائے مہربانی اپنے مشورے اپنی جیب میں رکھیں اور پی ٹی ایم کے بیانیے کو آگے بڑھائیں۔ انہیں ریاست اور اسکے اداروں کو نصیحت کرنی چاہیے کہ وہ بطورِ فریقِ معاہدہ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
پاکستان کی ریاست اس وجہ سے نہیں ٹوٹے گی کہ پشتون اس ظالم و جابر ریاست سے یکطرفہ تجدیدِ وفا کرنے میں ناکام رہے ہیں یا لَر و بر کے نعرے پی ٹی ایم جلسوں میں لگتے رہے ہیں بلکہ اس وجہ سے ٹوٹے گی کہ ریاست پاکستان اپنے اور شہریوں کے درمیان ایک معاہدہ عمرانی کی بجائے جبر اور ننگی طاقت پر قائم شدہ تعلق کو دوام دینے پر تلی ہوئی ہے۔
میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے کچھ نادان دوست پشتونوں کو ریاست سے مسلسل تجدیدِ وفاء کا درس اس بنیاد پر بھی دے رہے ہیں کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ریاست پشتونوں پر مزید تشدد کریگی۔ اس بھونڈی دلیل کی بنیاد خوف ہے۔ خوف ہمارے فیصلوں اور وفاداریوں کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ اور اسی آگہی پر پی ٹی ایم کی بنیاد پڑی تھی۔
آخر میں ان نا صحین کیلیے احمد فراز کا یہ اشعار پیشِ خدمت ہیں:۔
اے خدا جو بھی مجھے پندِ شکیبائی دے
اسکی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے
تیرے لوگوں کو گلہ ہے مرے آئینوں سے
انکو پتھر نہیں دیتا ہے تو بینائی دے
♦