علی احمد جان
سال نو کے آغاز پر ہی ملک کے شمال میں واقع ضلع غذر کی تحصیل اشکومن میں ایک چودہ سالہ طالب علم دیدار حسین کے ساتھ پیش آنے والے اجتماعی جنسی زیادتی اور بہیمانہ قتل کے واقعہ نے اس پر امن اور پر سکون وادی میں ہیجان پرپا کر دیا ہے۔
اس سال ہونے والی بے پناہ برف باری اور پڑنے والی شدید ترین سردی کے باوجود لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوکر اپنا پر امن احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔اب تک آٹھ ملزمان کی گرفتاری عمل میں آئی ہے، انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت مقدمہ درج کرکے ملزمان سے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
مقدمہ درج ہوچکا ہے، ملزم گرفتار ہوچکے ہیں، تفتیش جاری ہے اور فیصلہ عدالت نے کرنا ہے اس لیے اس تحریر کا مقصد حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر اثر انداز ہونا نہیں بلکہ اس بحث کو آگے بڑھانا ہے جو بڑھتے ہوئے تشدد کے اسباب، عوامل اور سد باب کے بارے میں وقتاً فوقتاً جاری رہتی ہے۔ چونکہ اس واقعے کے خلاف ایک شدید عوامی رد عمل بھی موجود ہے جس کو اجتماعی مثبت سوچ کے دائرے میں لانے کی ضرورت ہے جو ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ اور جائزہ کے بغیر ممکن نہیں۔
جنسی تشدد سے متعلق جرائم کی کئی اقسام ہیں اور دنیا کا کوئی ملک شہر اور قصبہ اس سے پاک نہیں۔ جنوبی ایشیائی ممالک میں بھی جنسی تشدد کا رجحان اتنا ہی ہے جتنا امریکی ممالک اور مشرق وسطیٰ میں ہے فرق صرف طریقہ واردات کا ہے۔ ہندوستان کی راجدھانی نئی دلی کو ریپ کپیٹل بھی کہا جاتا ہے جہاں خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے واقعات بہت زیادہ پیش آتے رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ امریکا کے سب سے بڑے تجارتی شہر نیو یارک میں بھی ہوتا ہے اور برطانیہ میں بھی حالات زیادہ بہتر نہیں۔
ہمارے ہاں گزشتہ کچھ سالوں سے نوعمر بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کے بارے میں بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جرائم تو پہلے موجود تھے مگر زرائع ابلاغ تک عوام الناس کی رسائی سے ایسے جرائم کی خبریں اب منظر عام پر آرہی ہیں۔
نابالغ بچوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات میں منظم منصوبہ بندی کے ساتھ کیے جانے والے اور نادانستہ طور کئے جانے والے دونوں ہی طرح کے جرائم شامل ہیں۔مگر زیادہ تشویش حالیہ برسوں میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور تشدد کی فلمیں بنا کر ان کو بلیک میل کرنے اور بین الاقوامی بلیک مارکیٹ میں ایسی فلمیں بیچنے کے واقعات سے پیدا ہوئی ہے۔ جنسی زیادتی کی فلوں کا یہ مکروہ دھندہ اب ایک بین الاقوامی سطح کا مسئلہ بن چکا ہے جس کے تدارک کے لیے بد قسمتی سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت اور ارادے دونوں پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔
عوام الناس کی رائے میں اشکومن میں پیش آنے والے واقعے کو بھی منظم جنسی تشدد اور بہیمانہ قتل کی واردات ہے جس میں آٹھ افراد پر مشتمل ایک گروہ ملوث ہے جن میں مختلف عمروں اور تعلیمی اور ذہنی سطح کے لوگ شامل ہیں۔ علاقے کے لوگوں کی رائے میں یہ ان سب لوگوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اس اندوہناک واردات کا ارتکاب کیا ہے جس سے پر امن شریف لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا کرکے اپنی دھاک بٹھانا مقصود ہے۔
جنسی تشدد کو خوف پیدا کرنے کے لیے بطور آلہ استعمال کرنے میں ایسے جرائم کا ارتکاب کیا جاتا ہے جس میں معصوم بچوں، مردوں اور عورتوں کو انتہائی بے رحمی اور سنگدلی سے شکار کیا جاتا ہے تاکہ دوسروں کے دل میں خوف اور دہشت پیدا ہو۔ ہمارے ہاں اجتماعی جنسی تشدد اور قتل کو سیاسی و سماجی انتقام کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرنے کی تاریخ بھی بہت پرانی ہے۔
حالیہ تاریخ میں تقسیم ہند کے دوران پیش آنے والے دلخراش واقعات پر بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے اس کو دہرانے کی ضرورت نہیں اور نہ بنگلا دیش میں ایسے واقعات جو اب ان کی تاریخ کا حصہ ہیں ہم بے خبر ہیں مگر دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم نےان سے سیکھا کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ہاں اب بھی ایسے واقعات کا ظہور پذیر ہونا ہماری اجتماعی ذہنی بیمار سوچ کی غمازی ہے۔
جنسی تشدد کو سیاسی اور سماجی طور پر فروغ تب ملتا ہے جب ایسے جرائم گروہی برتری کی علامت سمجھتے ہوئے نہ صرف قبول کیے جاتے ہیں بلکہ ان جرائم کا ارتکاب کرنے والے بھی اپنے گروہ میں ہیرو بن جاتے ہیں۔ بعض معاشروں میں کسی گروہ کی عزت اور وقار کو برقرار رکھنے کے لیے کبھی شادی اور کبھی بغیر شادی کے بھی دوسرے گروہ کی خواتین سے جنسی زیادتی کو حق کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مختار مائی کا واقعہ جنسی زیادتی کو بطور حق استعمال کرنے کی ایسی سوچ کی ایک زندہ مثال ہے۔ کئی ایسے واقعات بھی ہیں جن میں مخالف گروہ کے لڑکوں کو بھی ایسے جرائم کا نشانہ بنانے کو بطور حق کے استعمال کیا گیا ہے۔
ایسے جرائم کے پیچھے ایک خاص سوچ کار فرما ہوتی ہے جس میں ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والا ایسے عمل کو مردانگی سمجھتے ہوئے اپنی طاقت کو مخالف گروہ کے خلاف استعمال کرنے کو برتری گردانتا ہے۔ ایسی سوچ کے حامل لوگوں کے نزدیک شکار جس قدر خوبصورت، بڑے خاندان اور حیثیت کا ہو ایک ٹرافی کی طرح شکاری کے لیے اتنا ہی بڑا اعزاز ہوتا ہے ۔
زیادتی کے ایسےاقعات کا مقصد اپنی جنسی آسودگی نہیں بلکہ اپنے مخالف کی ذہنی اذیت ہوتی ہے اس لیے ان کا پرچار بھی کیا جاتا ہے اور ایسی کاروائیوں کی تشہیر بھی کی جاتی ہے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ عمومی طور پر معاشرے نے ایسے جرائم اور ان کے ارتکاب کرنے والے کی حوصلہ افزائی کی ہے تب ہی تو ہمارے افسانے، ناول، فلمیں اور ڈرامے ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔
ایسے ہیجان خیز واقعات کے رونما ہونے پر احتجاج کرنا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالنا بھی ایک ریت بن چکی ہے مگر اس سے ایسے جرائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ہم جانتے ہیں کہ کبھی کوئی تشدد زدہ لاش کسی ویرانے میں مدفن ملی تو کبھی کسی نوجوان کی پانی میں تیرتی ہوئی لاش ملی جس نے اپنی عزت بچانے کے لیے دریا میں چھلانگ لگائی تھی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان واقعات میں جو مرے یا ماردیے گئے وہ ان سے کئی گنا کم ہیں جو زندہ ہیں اور اپنے دل میں بے توقیری اور بے عزتی کا گھاؤ لیے ساری زندگی کے لیے مر چکے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جب تک اغوا کار ہمارے جرگوں کی سربراہی کرتے رہیں گے اور جنسی تشدد کے مجرم سرکاری عہدوں پر براجمان رہیں گے ایسے واقعات کبھی بھی نہیں رکیں گے۔
ایسے شرمناک واقعات کا رکنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم سب ایسے جرائم سے نفرت نہ کریں اور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرمان کونام نہاد عزت دینا نہ چھوڑیں۔ دیدار حسین اور دیگر ایسے کئی بے گناہوں کے قتل کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے جس نے اس سے پہلے ہونے والے ایسے واقعات کے مجرمان کو عزت دے کردوسروں کے لیے اس قبیح فعل کو قابل تقلید بنا دیا ہے۔ جب تک معاشرے میں ظلم ، جبر اور تشدد کو قابل تفاخر سمجھنے کی ایسی بیمار سوچ موجود ہے ایسے واقعات بار بار ہوتے رہیں گے۔