اوآئی سی:عد م تعاون اور منافقت کے پچاس سال

طارق احمدمرزا

پاکستانی پارلیمنٹ نے پچھلے دنوں بجا طورپرتنظیم برائے اسلامی تعاون (او۔آئی۔سی)کے حالیہ اجلاس ،وزراء خارجہ اسلامی ممالک کانفرنس، کے بائیکاٹ کی قرارداد منظورکی۔ہمسایہ برادرملک ایران کئی برس پہلے سے ہی دانش مندی اورحکمت عملی کی ان منازل کو طے کر چکا ہے جبکہ پاکستان میں خوداعتمادی اور خودوداری کے بہترمعیار پہ مبنی یہ ’’تبدیلی‘‘اب آئی ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمنٹیرین) کے رہنماؤں نے بھی پارلیمنٹ کے اس اکثریتی فیصلہ کوقبول کیاتاہم ان کاخیال تھا کہ پاکستان کو عالمی سطح کے ہرپلیٹ فارم اورفورم کواپنی سفارتکاری اور مؤقف کے اظہارکے لئے استعمال میںلانا چاہئے۔او آئی سی کے ممبرممالک ہمارے دیرینہ دوست اورساتھی ہیں،ہمیں جانتے ہیں،وہ ہمارے ہاں آتے اورہم ان کے ہاں جاتے ہیں،ان کے ساتھ ہمارے مذہبی مراسم بھی ہیں وغیرہ۔

سوال پیدا ہوتاہے کہ کیا یہ زمانہ بین الاقوامی سفارتکاری اورتعلقات کو مذہبی بنیادوںپراستوار رکھے جانے کا زمانہ ہے؟۔کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی سابق سربراہ ڈاکٹرطلعت وزارت نے جرمن خبررساں ادارہ ’’ڈوئچے ویلے ‘‘کوانٹرویودیتے ہوئے پاکستانی وزیرخارجہ کے اسلامی تنظیم کے اجلاس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلہ کوسراہااور کہاکہ ایک ایسے موقع پر جب پاکستان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دوسرے اسلامی ممالک کے تعاون کی ضرورت تھی۔ان ممالک نے پاکستان کو مایوس کیا۔آپ نے کہا کہ ہمیں اب معروضی حقائق کی روشنی میںچیزوں کو دیکھنا چاہئے اور جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہیئں۔ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب،متحدہ امارات اور دوسرے اسلامی ممالک تجارتی مقاصد کے لئے پاکستان پر بھارت کو ترجیح دیتے ہیں۔سعودی عرب تو اپنے مفادات کے لئے اسرائیل سے بھی تعلقات قائم کرنے کی کوششیں کررہا ہے ،تو ہمیں بھی اپنے مفادات پیش نظررکھنے چاہیئں۔

ایک اور تجزیہ نگاراحسن رضا کابھی یہ کہنا تھاکہ ایک طرف ہمیں بھائی کہاجارہاہے اوردوسری طرف تجارتی مقاصد کے لئے بھارت کو خوش کیاجا رہا ہے توہمیں اپنی آنکھیں کھولنی چاہیئں۔آپ نے کہا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کو استعمال کیا ہے،جس طرح ایران پردشنام طرازی کے لئے انہوں نے حال ہی میں پاکستان کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا۔لہٰذا ہمیں اپنے مفادات کے تحت ممالک سے تعلقات استوار کرنے چایئںاورسفارتکاری کو مذہبی اندازمیں نہیں دیکھنا چاہئے۔(ڈی ڈبلیو)۔

قارئین کرام،یہ ایک حقیقت ہے کہ اوآئی سی بھی اپنی سرگرمیاں مذہبی نہیں بلکہ تجارتی اورسیاسی بنیادوںپر چلانے لگ گئی ہے۔پاکستان کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں تنظیم نے پاکستان کی اشک شوئی کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ کشمیرمیں جاری انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزی کے خلاف ایک متفقہ مذمتی اعلامیہ تو جاری کردیالیکن یمن میں سعودی عرب کی مسلح جارحیت کا ذکرتک نہیں کیاجو کہ بھارتی مقبوضہ کشمیرمیں ڈھالے گئے مظالم سے کئی ہزارگنا بھیانک اور سفاکانہ ہے ۔اس کے برعکس اسی تنظیم نے امریکہ کی ایما پر شام کی رکنیت ختم کرنے میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں کی تھی،اس فیصلہ پر پاکستان خود بھی دم سادھ کر خاموش بیٹھا رہا تھا۔صرف ایران نے اس فیصلہ کی مخالفت کی تھی اورا س کی وجہ بھی ظاہر ہے کہ سیاسی تھی۔

کیا ’’اسلامی تعاون‘‘ اسی کا نام ہے؟۔اسلام تو ’’تعاونوا علی البرّ والتقویٰ‘‘ اور ’’ولا تعانوا علی الا ثم والعُدوان‘‘ یعنی نیکی میں تعاون اور برائی میں عدم تعاون کی تلقین کرتا ہے لیکن یہ نام نہاد ’’اسلامی ‘‘تنظیم جوعملی نمونہ دکھلا رہی ہے وہ کچھ اور ہی کہانی بیان کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس سال کو او آئی سی نے ’’اسلامی تعاون کے پچاس سال‘‘کے طورپرمنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ان پچاس سالوں میں پاکستان کے ساتھ اس اسلامی تنظیم کے عدم تعاون کی ایک اور مثال سقوط ڈھاکہ یعنی قیام بنگلہ دیش کا واقعہ ہے،جس کی تفصیلات دہرانے کی ضرورت نہیں۔اسی بنگلہ دیش نے گزشتہ برس انڈیا کو اس سال کی کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی مدعوکرنے کی تجویز پیش کی تھی،جو پاکستان کے شدید قولی اور فعلی احتجاج کے باوجودرد نہیں کی گئی۔

ان حالات میں پاکستان کو خود اپنی اداؤں پہ بھی ذراغورکرنے کی ضرورت ہے۔اسلامی ممالک کے لئے روزاول سے سدا قرضے اور امدادمانگنے والااسلامی بھائی پاکستان اچھا ہے یاباہمی تجارت کرنے والا ’’ غیر اسلامی‘‘ بھارت؟۔پیغمبرِ اسلام نے تو قرضے اور بھیک مانگنے کی سخت مذمت کی تھی اور تجارت کو اپنا پسندیدہ پیشہ قراردیاتھا۔کیا ہم خود کو اسلامی جمہوریہ قرار دینے میں حق بجانب ہیں؟۔کیا قرضے اور خیرات مانگتے چلے جانا اسلامی تعاون میںشمارہوتاہے؟۔کیا پاکستان او آئی سی کا ممبر رہنے کاحقدار بھی ہے؟۔

او آئی سی کے قیام کی اغراض ومقاصدمیں ایک اہم بلکہ بنیادی شق مسلمانوں کے قبلہ اول الاقصیٰ کوسیاسی اور عسکری جدوجہدکے ذریعہ صیہونی تسلط سے آزادکروانا تھا۔اس تنظیم کے ممبرممالک نے اقوام متحدہ میں اسرائیل اور صیہونیت کے خلاف ایک انتہائی مؤثرگروپ بھی قائم کرلیاتھا جو اسرائیل اور اس کی حامی لابی کوکواس فورم پہ ناکوں چنے چبوانے میں کامیاب رہتا تھا۔او آئی سی (خصوصاًاس کے عرب ممبرممالک) کی اسی مؤثر لابنگ کا نتیجہ تھاکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سنہ 1975ء میں قراردادنمبر 3379منظورکی جس میں عالمی صیہونی تنظیم کونسل پرست اورنسلی امتیازپہ قائم ایک تنظیم قراردے دیا تھا۔ قرارددادکے حق میں 72 ووٹ پڑے تھے ،35نے مخالفت کی تھی جبکہ32 ارکان غیرحاضر رہے۔اس قراردادنے اسرائیل کو زخمی شیر بناڈالا اور وہ اپنے زخم چاٹتابدلہ لینے کی نئی چالوں کی سوچ میں مصروف ہوگیا۔

سنہ 1991میں اسرائیل نے بالآخر اپنی نئی چالوں کی کامیابی کی بدولت یہ اعلان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی کہ وہ اقوام متحدہ کے آئندہ اجلاس میں مذکورہ قرارددادنمبر 3379کے خلاف ووٹنگ کرواناچاہتا ہے۔اس پر او آئی سی کا ایک ہنگامی اجلاس بلایا گیاجوسینیگال میں منعقد ہوا۔اجلاس میں دھواں دھارجذباتی تقاریرکرکر کے متفقہ طورپر یہ عہد کیا گیاکہ ا سرائیل کو مذکورہ ریزولوشن کو کالعدم قرار دلوانے کی اس کوشش کو ہرگزکامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ لیکن جیسا کہ وقت نے ثابت کیا ،یہ اجلاس درحقیقت مومنوں کا نہیں ،منافقوں کا اجلاس تھا۔او آئی سی منافقوں کی تنظیم بن چکی تھی۔

چنانچہ جب دو ہفتہ بعد اقوام متحدہ کااجلاس ہوا،اسرائیل نے قرارداد پیش کی، تواو آئی سی کے انہی ممبر ممالک کے کچھ نمائندے تو ووٹنگ سے پہلے ہی غائب ہوگئے جبکہ باقی ماندہ نے اسرائیل کے حق میں ووٹ ڈالے!۔اور یوںصیہونیت مخالف قراردادنمبر 3379ختم ہوگئی۔

لطیفہ ہے کہ اجلاس کے بعدساری دنیا ایک دوسرے سے پنجابی میں پوچھتی تھی کہ ’’او آئی سی؟‘‘ لیکن جواب ملتا تھا کہ ’’آئی تے سی لیکن پتہ نئیں کتھے غائب ہوگئی!‘‘۔پوچھنے والاپھر انگریزی میں کہتا تھا کہ ’’اوہ،آئی سی!‘‘(Oh! I see ..)۔

ا و آئی سی کے ممبر ممالک کی اسی منافقت کی ایک اور مثال بھی ملاحظہ ہو۔

جب امریکہ نے اسرائیل میں موجود اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کااعلان کیا تواو آئی سی کے ممبرممالک نے اپنے اپنے عوام کو دھوکا دینے کی غرض سے دکھاوے کے طور پر شورو غوغا بلند کیا،سنگین نتائج کی دھمکیاں دی،پریس کانفرنسیں منعقد کیں،پارلیمانوں میں قرارددادیں منظور کیں،جن میں پاکستان بھی شامل ہے لیکن اصل حقیقت کیا تھی؟۔حقیقت یہ تھی کہ روزنامہ پاکستان کی آن لائن اشاعت بمؤرخہ 09 دسمبر 2017 میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے بعض اہم مسلم ممالک سے مشورہ کے بعدہی یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت ماننے کا اعلان کیا تھا۔اخبار کے مطابق یہ دعویٰ سینئر صحافی ضیاء شاہد نے اپنے پروگرام کے دوران گفتگوکرتے ہوئے کیا۔آپ نے اسرائیل کے ایک ٹی وی چینل کے حوالے سے بتا یا کہ امریکہ نے جن مسلمان ممالک کا ذکر کیا ہے ان میں پہلے سعودی عرب کا نام آتا ہے۔اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات یعنی ابوذہبی کا نام بھی لیا جارہا ہے کہ یہ بھی مشاورت کئے جانے والے مسلم ممالک میں شامل ہے۔تیسرے نمبرپر مصر کانام اسی چینل نے لیا ہے۔ ضیاء شاہدکے مطابق مصرپہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ ترکی نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔

اخبار کے مطابق ضیا شاہد نے بتایا کہ امریکہ میں 1995 میں سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا قانون منظور ہوا تھا۔سینٹ اور ایوان نمائیندگان کی بھاری اکثریت نے اس کی منظوری دی تھی جس میں دونوں امریکی جماعتوں کے ارکان نے ووٹ دئے تھے۔اس وقت تمام مسلمان ممالک کو اس کا علم تھامگر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔گزشتہ بائیس برس سے مسلمان ممالک کو اس کا علم تھا مگر انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی‘‘۔

تو یہ ہے حقیقت ۔اس پر منافقت کی انتہا دیکھیں کہ مئی ۲۰۱۸ میں ترکی نے ہنگامی طورپر استنبول میں اوآئی سی کی کانفرنس بلائی جس پر عمران خان نے طیب اردوان کومسلم امہ کا ہیرو اور نجانے کیا کیا خطابات دے ڈالے لیکن کانفرنس کے دوران یا معاًبعد مسلم امہ کے یہی ہیرو اورمحسن اسرائیل سے متعدد قسم کے تجارتی معاہدے منسوخ کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔

جرمن خبررساں ادارہ ڈی ڈبلیو نے سرخی جمائی تھی کہ پیسوں کے معاملہ پہ آکر ترک اسرائیل دشمنی فٹ سے ختم ہوجاتی ہے۔

۔(https://www.dw.com/en/turkey-and-israel-animosity-ends-when-it-comes-to-money/a-41766113)۔ڈی ڈبلیو کے مطابق ترکی نے اسرائیل کو سنہ ۱۹۴۸ میں تسلیم کرلیا تھا۔

استنبول میں ہونے والی ہنگامی او آئی سی فا ر ن منسٹرز کانفرنس کے ڈیڑھ دوماہ بعدہی یعنی جولائی ۲۰۱۸ میں قبلہ اول کے نام پہ مسلم امہ کادل جیتنے والے طیب اردوان صاحب نے اسرائیل میں موجود اپنے سفارتخانہ میں مستقل طورپر تجارتی اتاشی کی تقرری کااعلان بڑے فخروانبساط کے ساتھ کیا۔جبکہ پاکستانی قو م اور اس کے جذباتی لیڈربقیہ مسلم امہ کی طرح زندہ بادمردہ بادکے نعرے لگاتے لگاتے دوبارہ گہری نیندسوچکے تھے۔

https://tusiadus.wordpress.com/2018/08/28/turkey-and-israel-economic-relations-the-buck-does-not-stop-here

پاکستان کا یہی حال ہے۔پاکستانی سینٹ میں امریکہ کے مبینہ اقدام کی دھوم دھام سے شدیدمذمت کی گئی،القدس کے نام پہ آنسو بہا ئے گئے،مبینہ طورپرسینیٹر راجہ ظفرالحق صاحب کی طرف سے امریکی مصنوعات کے بایئکاٹ کی تجویزپیش کی گئی لیکن جب ایم کیو ایم کے دلیر سینیٹرحمیداللہ جان آفریدی صاحب نے موقع پر ہی انہیں للکاراکہ آئیں ہم سب پاکستانی سینیٹرپہلے اپنے اپنے پاسپورٹوں کا وہ صفحہ توپھاڑکرنذرِ آتش کریں جن پر ہمیں دس دس سال کا امریکی ڈپلومیٹک ویزہ ملا ہواہے تومحترم راجہ صاحب موصوف اپنی سیاہ مونچھوں کے نیچے کوئی ادنیٰ قسم کی کھسیانی ہنسی بھی نہ دکھا سکے۔ظاہر ہے یہ سب گفتارکے غازی ہیں ، اورایسے ہی رہیں گے۔

آج پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی صاحب بھی اسرائیلی اخبارات کو یہ بیان ریکارڈ کروارہے ہیں کہ حالات ٹھیک ہولیں تو پاکستان اسرائیل کے ساتھ بخوشی تعاون کرنے کوتیارہے۔یروشلم میں امریکی سفارت خانہ کی تعمیرمکمل ہونے کوآرہی ہے ،قبلہ اول کی غیرت کام کر رہی ہوتی تومسلم ممالک یوں آرام سے نہ بیٹھے ہوتے۔ایک دن کا احتجاج ،ایک دن کا جلوس ،ایک دن کی کانفرنس منعقد کرلینا ،قبلہ اول کی توہین اور اس کے ساتھ وابستہ مخلص مسلمانوں کے جذبات کا مذاق اڑاناہے اورکچھ نہیں۔آج نام نہادمتحدہ اسلامی فوج کی توپیں اسرائیل کی طرف نہیں یمن،شام اور ایران کی طرف رخ کئے ہوئے ہیں۔

اوآئی سی کے قیام کا ایک اور مقصد اس کے ممبر ممالک کی اقتصادی خوشحالی کے لئے کام کرنا،ان ممالک کوترقی یافتہ دنیا کے برابر لاکھڑا کرنا تھا۔اس میدان میں اس تنظیم کی پچاس سالہ ناکامیوں کا شرمناک ریکارڈیہ ہے کہ ستاون مسلمان ملک،جن کے پاس دنیا کے ستر فیصد انرجی کے ذرائع اور ذخائر ہیں اوردنیا کے چالیس فیصدخام معدنیات ،وجود ہیں ،دنیا کی جی ڈی پی(گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ) کا صرف پانچ فیصدحصہ بنارہے ہیں۔دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان قہاری وغفاری وقدوسی و جبروت کے بل بوتے پر ہرمعاملہ میں دنیاکے لئے ایک مثالی نمونہ بن جاتا ہے۔اب تو نری قہاری رہ گئی ہے اور وہ بھی دق وسل کے کھائے ہوئے سینے کی کھوکھلی کھانسی کی طرح بدبو کا ایک موہوم سابھبکا۔قہر درویش برجان درویش !۔

اسی پہ بس نہیں،مسلمانوں کے معاملہ میں قہرِ درویش برجانِ درویش ہی نہیںبرجانِ خویش بھی گرتا نظرآتاہے۔آج کے مسلمانوں پر اگربرق گرتی ہے تو مسلمانوں کے ہاتھوں ہی۔ ’’تھینکس ٹو او آئی سی‘‘۔چنانچہ اوآئی سی کی نام نہادقہاری،قدوسی وجبروت دس سالہ ایران عراق جنگ نہ رکوا سکی۔صابرہ اورشتیلہ کے فلسطینی کیمپوں پرمیجرضیاء الحق کی سرکردگی میں کی گئی بمباری بھی نہ رکوا سکی۔عراق ،غزہ کی پٹی، کوسووو،بوسنیا ہرزگووینا ،میانمار،کشمیر،افغانستان،فاٹا، بلوچستان،ایغور،غرض دنیا کے کسی بھی خطے میں موجود مسلمانوں پہ آئی آفتوں کو یہ او آئی سی نامی نام نہاد تنظیم نہ رکوا سکی۔

ہزاروں لاکھوںمسلمانوں کا خون او آئی سی کے دیوہیکل فریزر میںپڑایوم قیامت کے انتظارمیں ہے جب اسلامی عقائد کے مطابق اصل مجرموں کو بے نقاب کرکے ان سے قطرے قطرے اورپائی پائی کا حساب لیاجائے گا۔’’ اوئے سورا،اوئے دلے، اوئے پین دی سری ‘‘کے خطابات تیزاب میں ڈبو ڈبوکر ان کے منہ پہ مارے جائیں گے۔

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گابنجارہ

خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ زمانہ مذہب کے نام پرعلاقائی یابین الاقوامی تنظیمیں بنانے یاچلانے کا نہیں۔ مذہبی جذبات کو’’ایکسپلائٹ‘‘ کرکے مقامی یاعالمی سیاستیں چمکاناایک قبیح فعل ہے۔اگرآج کچھ عیسائی اکثریت پرمشتمل ممالک مل کر او سی سی (آرگنائزیشن آف کرسچئین کواپریشن)نامی کوئی تنظیم قائم کرلیں تواس پرسب سے زیادہ مذمت اور غم وغصہ کااظہار اوآئی سی کی طرف سے ہی کیا جائے گا۔

٭

Comments are closed.