خالد تھتھال
علی دشتی ایک محقق، مصنف، دانشور، ناول نگار، مترجم، ادبی نقاد اور صحافی ہونے کے علاوہ ایرانی مجلس شوریٰ کے رکن، سینٹ کے رکن اور مصر میں ایرانی سفیر کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے۔
علی دشتی مشہورشیعہ عالم دین شیخ عبدالحسین دشتی کے ہاں مارچ 1897ء میں پیدا ہوئے۔ علی دشتی کی جائے پیدائش کے حوالے سے مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ ان کی جائے پیدائش کربلا بتاتے ہیں، اورکچھ کے بقول وہ جنوبی ایران کے صوبہ بوشہر کے ضلع دشتستان کے قصبہ تلخو میں پیدا ہوئے جہاں ان کے والد ایک نامور مذہبی عالم کی وجہ سے بہت مقبول اور معزز سمجھے جاتے تھے۔ علی دشتی نے کربلا اور نجف کے شیعہ مدارس میں عربی، قرآن کریم کی تلاوت، تفسیر، اسلامی تاریخ، تاریخ اقوام، علم حدیث، منطق، حکمت، فقہیت اور اصول فقہ کا مطالعہ کیا۔ ان کے خاص استاد مشہورعالم دین حسین فشارکی تھے۔
24 سال کی عمر میں دشتی واپس ایران لوٹ آئے۔ علی دشتی نے ایک ایسے گھر میں پرورش پائی تھی جس کے سب افراد ہی مذہبی عالم تھے۔ ان کے دوست بھی ایران و عراق میں نامور مذہبی علماء کے طور پر جانے جاتے تھے۔ گو دشتی کو بھی مذہبی حوالے سے ایک بڑے عالم کا درجہ حاصل تھا، لیکن انہوں نے اپنے خاندان اور دوسرے لوگوں کی توقعات کے برعکس واپسی پر مذہبی عالم بننے یا کہلوانے کی بجائے صحافت کو بطور پیشہ اختیار کیا۔ ویسے بھی انہوں نے واپسی پر مذہبی جبّے اور عمامے کی بجائے مغربی لباس پہنا ہوا تھا۔
دشتی کو اس بات کا دکھ تھا کہ ایرانی علماء نے جرمنی، روس اور برطانیہ میں رابطے قائم کیے ہوئے ہیں اور یہ پیسوں اور طاقت کے حصول کے لیے کس قسم کا سمجھوتہ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے اور چونکہ عوام کی اکثریت ان پڑھ تھی لہذا عوام پر ان علماء کا اثر بہت زیادہ تھا۔ چنانچہ بیرونی طاقتیں ملک میں تیل کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں استعمال کرتی تھیں۔
علی دشتی کا پہلا مضمون شیراز کے ایک اخبار میں چھپا۔ بعد میں انہوں نے روزنامہ فارس اور روزنامہ خلیج فارس میں میں لکھنا شروع کیا۔ رکن زادہ نامی ایک بااثر آدمی کے خلاف مضمون لکھنے کی وجہ سے علی دشتی کو قتل کروانے کا ارادہ کیا گیا۔ دشتی کو بھنک پڑ گئی اور وہ وہاں سے بھاگ کر اصفہان چلے گئے۔
اصفہان منتقل ہونے کے بعد انہوں نے شیراز اور تہران کی مختلف اخبارات میں سیاسی نوعیت کے مضامین لکھنے شروع کر دیئے۔ بعد میں تہران منتقل ہوئے اور وہاں سے ستارہ ایران نامی اخبار کا اجرا کیا۔ سادہ انداز اور کاٹ دار مضامین کی وجہ سے جہاں دشتی کے بہت زیادہ دوست اور حمایتی پیدا ہوئے وہیں ان کے مخالفین بھی پیدا ہوئے جس کی وجہ سے انہیں جیل کا سامنا بھی ہوا۔
سنہ1919ء کے معاہدے پر تنقید نے دشتی کو سیاست میں دھکیل دیا۔ یہ معاہدہ ایران اور برطانیہ کے درمیان ہوا تھا۔ جس کا تعلق اینگلو پرشین آئل کمپنی سے تھا۔ ایرانی مجلس شوریٰ کی توثیق نہ ہونے کے باوجود اس معاہدہ پر عمل ہو رہا تھا۔ اس معاہدے سے ایرانی کو بہت زیادہ مالی نقصان ہو رہا تھا جب کہ برطانوی کمپنی بہت زیادہ پیسہ کما رہی تھی۔ اس معاہدے کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اگر کوئی برطانوی شہری ایران میں کسی مجرمانہ کاروائی میں پکڑا جائے تو ایرانی حکومت اس پر مقدمہ نہیں چلا سکتی تھی۔
ان وقتوں میں دشتی کا آیت اللہ محمد حسین بورزجانی کے ساتھ قریبی رابطہ تھا۔ جو ایران کے برطانیہ کے ساتھ معاہدے کے بہت مخالف تھے۔ چنانچہ دشتی نے تہران جا کر آیت اللہ حسن مدرس کے ساتھ مل کر ایک تحریک شروع کرنے کا منصوبہ بنایا۔ حسن مدرس ایک انتہائی بااثر عالم تھے اور ان کے پیروکاروں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ دشتی نے اس وقت کے ایرانی وزیر اعظم وثوق الدولہ کے پاس ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا جو بہت سے اخبارات میں بھی شائع ہوا۔
سنہ1919ء کے معاہدے پر تنقید کے نتیجے میں دشتی کو تین سال قید کی سزا ہوئی لیکن دس دن تک قید رکھنے کے بعد بغیر پیشگی اطلاع دیئے انہیں عراق جلاوطن کر دیا گیا۔ اپنی جلاوطنی کاٹنے کے لیے ابھی دشتی سرحد کے پاس ہی پہنچے تو انہیں خبر ملی کہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے فتح الله خان اکبر کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹا دیا ہے۔ چنانچہ وہ واپس لوٹ آئے۔
سنہ1921 کی فوجی بغاوت رضا خان پہلوی نے کی برپا کی تھی۔ لہذا ان کی سفارش پر ضیا الدین طباطبائی کو وزیر اعظم بنایا گیا۔ علی دشتی ضیا الدین طباطبائی کے دور میں بھی قید ہوئے۔ یہ قید ضیا الدین طباطبائی کی 90 دن کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے پر ختم ہوئی۔ اس قید کے دوران دشتی نے اپنی کتاب ”ایام محبس“ مکمل کی جو ان وقتوں کی ایرانی صورت حال پر ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے نہ صرف کئی ایڈیشن شائع ہوئے بلکہ اس کی اشاعت نے انہیں ایک بہت ہی مقبول لکھاری کے طور پر متعارف کروایا۔
ضیا الدین طباطبائی کی وزارت عظمیٰ سے رخصتی کے بعد رضا خان نے خود وزارت عظمیٰ سنبھال لی۔ رضا خان شہنشائیت کی بجائے ایران کو ایک جمہوریہ بنانا چاہتے تھے۔ علی دشتی اور دیگر دانشور چاہتے تھے کہ ایران کو اتاترک کے ترکی کی مانند ایک جمہوریہ بنانا جائے اور رضا خان صدر بنیں۔ لیکن مذہبی حلقوں کی خواہش تھی کہ ملک میں جمہوریت کی بجائے شہنشائیت قائم ہو کیونکہ انہیں اپنی پوزیشن چھننے کا ڈر تھا۔
پوری پارلیمنٹ کے مقابلے میں ایک انسان کو قابو میں لانا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ جمہوریت پسند دانشور یہ جنگ ہار گئے اور 1925ء میں رضا خان نے قاجاری سلسلہ کے ایک سو چھتیس سالہ اقتدار کا خاتمہ کرتے ہوئے آخری قاجاری حکمران احمد شاہ قاجار کو معزول کر دیا اور خود شہنشاہ بن گئے۔
رضا خان ایک انتہائی روشن خیال حکمران ثابت ہوئے۔ ان کے سولہ سالہ دور اقتدار میں ایران میں سڑکوں کا جال بچھانے کے علاوہ تہران ریلوے کا قیام عمل میں آیا۔ دانشگاہ تہران کے نام سے ایران میں سب سے پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی۔ اپنے بیٹوں کے علاوہ دیگر ایرانی طلبا کو بیرون ملک تعلیم کے لیے بھیجا گیا جس کے اخراجات حکومت نے برداشت کئے۔ مغرب میں ایران کے لیے پرشیا کا لفظ استعمال ہوتا تھا، اس کے لیے لیگ آف نیشنز میں وفد بھیجا گیا کہ آئندہ سے اس ملک کو پرشیا کی بجائے ایران یعنی آریاؤن کی سر زمین پکارا جائے۔
ملک میں مقیم یہودیوں کو برابر کا شہری قرار دیا گیا، اور نہ صرف انہیں باقی مسلمان آبادی کی مانند یکساں حقوق دیئے گئے بلکہ ان کے سیناگاگ میں جا کر خود رضا خان نے عبادت کی۔ اسی وجہ سے یہودی آج بھی رضا خان کو ایرانی شہنشاہ سائرس اعظم کے بعد اپنا دوسرا محسن قرار دیتے ہیں۔
خواتین کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لیے انہیں تعلیم اور ملازمتیں دینے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے۔ حجاب اور چادر کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی اور اس کی جگہ مغربی لباس پہننے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ باقاعدہ حکم جاری کیا گیا کہ اگر کسی تقریب میں میاں بیوی آئیں تو بیوی کے سر پر اوڑھنی نہیں ہو گی، اور اس حکم کی تعمیل کے سلسلے میں کسی کے امیر یا غریب، شہری یا دیہاتی ہونے کے فرق کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جائے گا۔ درسگاہوں میں مخلوط تعلیم کا نظام رائج کیا گیا۔ اس کے علاوہ محرم کے ماتم کو ایک دن تک محدود کردیا گیا۔ مساجد میں عبادت کے لیے زمین پر بیٹھنے کی بجائے کرسی استعمال کرنے کی ہدایت کی گئی۔
مذہبی حلقوں کو رضا خان کے یہ اقدامات پسند نہ آئے اور نہ ہی وہ عورتوں کی ”بے پردگی“ برداشت کر پائے۔ چنانچہ رضا خان کے خلاف محاذ کھڑا ہو گیا جن کا اہم ترین نعرہ ” شاہ ایک نیا یزید ہے“ تھا۔
رضا خان ایران، ترکی اور مشرق وسطیٰ جیسے ہمسایہ ممالک کو ملا کر ایک کنفیڈریشن کے قیام کے بھی خواہاں تھے لیکن ان کا یہ خواب اتاترک کی موت کی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
رضا خان کے زمانے میں علی دشتی نے شفقِ سرخ نام سے ایک اخبار جاری کیا۔ جو اپنے جرآت مندانہ مضامین کی وجہ سے اپنے وقتوں کے دانشوروں کے خیالات کا ترجمان سمجھا جانے لگا۔ دشتی نے جہاں رضا شاہ کو ایرانی اتاترک کے طور پر مدح سرائی کی، وہیں وہ رضا خان کے آمرانہ رویوں کو ہضم نہ کر سکے۔ 1935ء میں دشتی کو چودہ ماہ کی قید کا حکم سنانے کے علاوہ شفق سرخ کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تین ماہ کی قید کے دوران علی دشتی بیمار ہو گئے اور انہیں ہسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ جہاں سے دو ماہ بعد وہ گھر پہنچا دیئے گئے۔ کچھ عرصہ بعد انہیں ”ادارہ راہنمای نامہ نگاری“ کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ اس ادارے کا بنیادی مقصد کتابوں اور اخبارات و رسائل پر سنسر کی پالیسی کا اطلاق کرنا ہوا کرتا تھا۔ 1941ء میں علی دشتی نے جمال امامی، ابراہیم خواجہ نوری اور دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حزب عدالت نامی سیاسی جماعت بنائی جس میں وہ 1948ء تک متحرک رہے۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران رضا خان پہلوی نے ایران کے غیر جانبدار ہونے کا اعلان کر دیا۔ برطانیہ کو رضا خان کا فیصلہ پسند نہ آیا اور برطانیہ نے الزام لگایا کہ ایران میں جرمن مہندس اور تکنیکی ماہرین جاسوسی کر رہے ہیں۔ چنانچہ ایران پرسوویٹ یونین اور ایران نے بمباری شروع کر دی۔ 1941 میں اتحادی قوتوں نے ایران پر قبضہ کر لیا، رضا خان گرفتار ہوئے اور رضا خان کو اپنے بیٹے محمد رضا پہلوی کے حق میں دستبردارکروانے کے بعد ملک بدر کر دیا گیا۔
گو رضا خان پہلوی کی حکومت کے دوران مجلس شوریٰ کے انتخابات میں علی دشتی بوشہر کے علاقے سے لگاتار منتخب ہوتے رہے تھے لیکن وہ اس دوران خود کو سیاستدان سے زیادہ ایک صحافی سمجھتے تھے۔ رضا خان کے بیٹے محمد رضا پہلوی کے دور میں علی دشتی کی سیاست میں دلچسپی بڑھ گئی اور مذہب اور صحافت میں ان کی دلچپسی کم ہو گئی۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کے مذہبی اعتقادات میں کمی آئی، اس سے پہلے وہ اسلام کو ایران کے تمام مسائل کا حل سمجھتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ ارد گرد کے حالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔
محمد رضا شاہ پہلوی کے زمانے میں علی دشتی نے فرانسیسی سیکھنے کی طرف توجہ دی کیونکہ فرانسیسی کو زبان زمانہ جدید کی ثقافت اور تہذیب کو سمجھنے کا دروازہ تصور کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے برطانیہ اور روس کی تاریخ و ثقافت کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ ممالک تہذیب و ترقی کی بلندیوں پر پہنچ پائے۔
سنہ1947ء میں علی دشتی کو تودیہہ نامی سوویٹ یونین نواز کمیونسٹ پارٹی کو کابینہ میں شامل کیے جانے اور روس کو دی جانے والی رعاتیوں پر تنقید کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا۔ چھ ماہ کی قید سے رہائی کے بعد وہ تہران سے فرانس چلے گئے اور دو سال بعد لوٹے۔ واپسی پر ایک سال کے لیے ان کا مصر میں سفیر کے طور پر تقرر ہوا۔ 1954 میں وہ سینٹ کے رکن بنا دیئے گئے، اور انہوں نے پہلوی حکومت کے خاتمے تک ایک سینٹر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
علی دشتی نے 1973ء میں بیست و سہ سال نامی کتاب لکھی جس میں انہوں نے قرآن کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ کو کوئی معجزہ ودیعت نہیں کیا گیا تھا، اور نہ ہی ان سے کبھی کوئی معجزہ سرزد ہوا تھا۔ دشتی کے بقول قرآن میں کچھ بھی ایسا نیا نہیں ہے جو اس سے پہلے نہ کہا گیا ہو۔ قرآن میں جو کہانیاں بیان کی گئی ہیں، وہ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہاں پہلے سے ہی موجود تھیں، جنہیں جوں کا توں یا تھوڑی تبدیلی کے ساتھ دوبارہ بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ نے جو کچھ بھی بیان فرمایا ہے، انسان کئی صدیاں پہلے ہی ان نتائج پر پہنچ چکا تھا کنفیوشس، بدھ، زرتشت، سقراط، موسیٰ اور عیسیٰ پہلے ہی ایسی تعلیمات دے چکے تھے۔ اسلام کے کئی مذہبی رسوم یا تو مشرکین مکہ کے ہاں پہلے سے ہی مستعمل تھیں یا انہیں یہودیت سے مستعار لیا گیا ہے
محمد رضا پہلوی کے دور میں مذہب مخالف اور سیاست کے متعلق کتاب لکھنے اور شائع کرنے پر پابندی تھی۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت میں دشتی کے بہت زیادہ عرب دوست بھی تھے۔ لہذا انہوں نے اپنی یہ کتاب پوشیدہ انداز میں وہاں ایک ناشر دوست کو بھجوا دی۔ ناشر نے جب علی دشتی سے پوچھا کہ اس پر مولف کے طور پر تمہارا نام دیا جائے؟، تو دشتی نے اسے منع کرتے ہوئے کہا ”اس پر جس کا نام چاہو لکھ دو، میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ لوگوں تک سچائی پہنچے“۔ اور یوں 1974ء میں یہ کتاب ناشر اور مولف کے نام کے بغیر شائع ہوئی۔
اس کتاب کے بیروت میں چھپنے کے حوالے سے چند مذہبی لوگوں کو وہاں بھنک پڑی تو انہوں نے کوشش کی کہ کتاب بازار میں نہ آ سکے۔ بیروت کی عدالت کے صدر موسیٰ صدر سے رابطہ کیا کہ کتاب کی اشاعت کو کسی طور پر روکا جائے۔ موسیٰ صدر اور علی دشتی کی لمبی بات چیت کےنتیجے میں کتاب کو جلایا تو نہ گیا البتہ اسے بازار تک پہنچنے سے روک دیا گیا۔ اور کتاب کی تمام کاپیاں لبنان میں علی دشتی کے ایک دوست علی نقی منزوی کو پہنچا دی گئیں۔ علی نقی کسی طور کچھ کتابوں کو ایران سمگل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چونکہ چھاپہ خانے میں صرف عربی حروف تہجی تھے، لہذا بہت سی فارسی آوازیں جیسے گ پ چ ز وغیرہ عربی میں نہ ہونے کی وجہ سے کتاب میں کافی اغلاط تھیں لیکن دشتی کو خوشی تھی کہ ان کی کتاب چھپ گئی ہے لہذا انہوں نے تمام کاپیاں اپنے نزدیکی دوستوں میں بانٹ دیں۔
خمینی کے دور حکومت میں یہ کتاب زیر زمین حکومت مخالفین دانشوروں، طالبعلموں اور ایکٹوسٹوں میں بہت مقبول ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ صرف ایک سال کے اندر اس کی پانچ لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں۔ کتاب کی اس قدر مقبولیت سے حکومتی علماء بہت فکرمند ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے خمینی کو خط لکھنے شروع کر دیئے کہ اس کتاب کے مولف کو ڈھونڈ کر موت کی سزا دی جائے نیز اسے پاس رکھنے یا پڑھنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں۔ علی دشتی کو کتاب کی فروخت کی آمدنی کی پرواہ تھی اور نہ اپنی کتاب کے مولف ہونے کا کریڈٹ لینے کا کوئی شوق تھا۔ لہذا کتاب پر ان کا نام درج نہیں تھا۔
کتاب کے مولف یا ناشر کا پتہ لگانے کے لیے بہت پکڑ دھکڑ ہوئی، بہت سے روشن خیال دانشور، مولفین اور تاریخ دان پابند سلاسل اور نام اگلوانے کی خاطر بہت سی اذیتوں اور تشدد کا شکار ہوئے۔ خمینی کے لوگوں نے لبنان میں بھی رابطے کر کے پتہ لگانے کی کوشش کی کہ اسے کس ناشر نے چھاپا ہے۔ لیکن انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
انہیں دنوں علی نقی منزوی کے نام کا پتہ چلا جو ایک یہودی تھا اور گولڈ زہیر کی ایک کتاب کا فارسی میں ترجمہ کر چکا تھا علی نقی پکڑا گیا اور اسے قید خانے کے اندر بہت عرصہ تک تشدد کا نشانہ بننا پڑا۔ تشدد کی تاب نہ لاتے ہوئے علی نقی نے آخر کار علی دشتی کا نام اگل دیا۔ علی دشتی کا نام سامنے آ جانے کے بعد خمینی کے پاسداران انقلاب نے اکیاسی سالہ علی دشتی کو قید کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا۔ ان پر انقلابی عدالت میں مقدمہ بھی چلایا گیا جس نے انہیں اسلام کے خلاف کتاب لکھنے پر موت کی سزا سنائی۔
علی دشتی جیل جانے سے پہلے جسمانی اور ذہنی طور تندرست تھے۔ لیکن ان پر اس قدر تشدد ہوا کہ ان کی ران بری طرح ٹوٹ گئی اور انہیں ہسپتال داخل کرنا پڑا۔ اُن کے ایک دوست کو بمشکل اجازت ملی کہ وہ ہسپتال میں ان سے ملاقات کر سکے۔ زندگی سے پیار کرنے والے علی دشتی نے دوست سے سائنائڈ لا دینے کی درخواست کی تاکہ وہ اپنی زندگی کو ختم کر سکیں کیونکہ اب یہ تشدد ان سے مزید سہا نہیں جا رہا تھا۔ علی دشتی نے اپنے دوست سے مزید کہا ” اب میں سمجھ چکا ہوں کہ دوزخ اورجنت میں کیا فرق ہے۔ جب میں شاہ کی قید میں تھا تو وہ جنت تھی، اور یہ موجودہ قید ایک جہنم ہے“۔
علی دشتی نے 16 جنوری 1982ء کو تہران کے جام ہسپتال میں وفات پائی، اورانہیں امام زادہ شہرری کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کی موت کی وجہ ان کی ران کا زخم نہیں بلکہ ان کی روح کو لگے زخم اور قید خانے میں کیا گیا تشدد تھا جس کو وہ سہہ نہ پائے۔
بیست و سہ سال آج بھی ایران میں مکمل طور پر ممنوع کتاب ہے۔ اگر یہ کتاب کسی کے گھر پائی جائے، کوئی اسے خریدتا یا بیچتا پایا جائے تو انہیں سزا کے طور پر قید یا موت کی سزا ہو سکتی ہے۔ علی دشتی کی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ ان کی خواہش کے مطابق ان کی وفات کے بعد 1994ء میں شائع ہوا۔
علی دشتی نے اخبارات و رسائل میں مضامین لکھنے کے علاوہ ناول نگاری، اخلاقیات، سیاست، فارسی تراجم، مذہبیات، فلسفہ اورکلاسیکی ایرانی ادب کے خالقین جیسے سعدی، حافظ، خیام، مولانا جلال الدین بلخی وغیرہ پر چالیس کے لگ بھگ کتابیں لکھیں۔
مذہب اور اخلاقیات کے حوالے سے انہوں نے پردہ پندار اور در دیارِ صوفیاں نامی کتابیں لکھیں جو صوفی ازم کو زیر بحث لاتی ہیں۔ جبر و اختیار نامی کتاب میں وہ آزاد ارادے اور تقدیر کے مسئلے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ ”عقل بر خلاف عقل“ نامی کتاب کو علی دشتی نے اپنا نام دیئے بغیر شائع کروایا۔ اس میں وہ امام غزالی کے منطقی تضادات کو سامنے لاتے ہیں۔ تیسری کتاب جسے انہوں نے اپنا نام دیئے بغیر شائع کروایا وہ تخت پولاد ہے۔ 1971ء میں شائع ہونے والی اس کتاب کو ایک مذہبی عالم اور اس کے شاگرد کے درمیان مکالمہ کے انداز میں لکھا گیا ہے، جس میں عالم ہر چیز کو قران و حدیث کی روشنی میں دیکھتے ہوئے مملکت کو قران و حدیث کے طے کردہ قوانین کے تحت چلانا چاہتا ہے۔ یہ کتاب امام خمینی کی کتاب ولایت فقیہہ کا جواب تھی۔
علی دشتی کو ایران کے دانشورانہ حلقوں میں ایک سورج کے حیثیت حاصل ہے۔ اور اُن کا نام ان تمام دلوں میں زندہ ہے جنہوں نے ان کی کتابیں اور مضامین پڑھے ہیں۔