طارق احمدمرزا
تینتیس سالہ ابھرتے ہوئے پاکستانی صحافی اسد ہاشم کی جرأت مندانہ رپورٹنگ اوراعلیٰ پائے کی صحافتی مساعی کے اعتراف میں فرانسیسی خبررساں ادارہ اژاں فرانس پریس نے انہیں 2018ء کے صحافتی ایوارڈ کا مستحق قرار دیا ہے۔یہ ایوارڈ اِسی ادارہ ،جسے مختصراً اے ایف پی کہاجاتاہے،کی ایک نامور صحافی سے منسوب ہے اور ’’کیٹ ویب پرائز‘‘کہلاتا ہے۔
اسد ہاشم اے ایف پی،الجزیرہ اور ڈان میں بحیثیت فری لانس رپورٹر لکھتے ہیں۔آپ ایک عرصہ سے پاکستان کی قومی اورمذہبی اقلیتوں کے مسائل اور ان کے حوالہ سے پاکستان کے ان قوانین کے بارہ میں بھی لکھ رہے ہیں جو مبینہ طور پر استحصال اور امتیازپر مبنی ہیں۔آپ محض خبروں یاواقعات کی رپورٹنگ نہیں کرتے بلکہ تحقیقاتی رپورٹنگ کرتے ہوئے خبروں کے پس منظر اوروجوہات کی بھی رپورٹنگ کرتے ہیں۔
اسی طرح آپ حساس نوعیت کی خبروں کی تصدیق کی خاطرخطرات بھی مول لیتے ہیں۔اس سلسلہ میں آپ کو اکثراوقات ایجنسیوں ہی نہیں بلکہ خبروں کا موضوع بنے افرادیاگروہوں کی طرف سے دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حساس نوعیت کے موضوعات پہ لکھنایابولنا’’آبیل مجھے مار‘‘کے مصداق ہوتا ہے۔
اے ایف پی کے ایشیا پیسیفک ڈائریکٹرفلپ میسونٹ کا کہانا ہے کہ یہ دور پاکستانی صحافیوں کے لئے بہت کٹھن ہے۔ان حالات میں اسدہاشم کی طرف سے جرأت مندانہ اور نڈررپورٹنگ اسے کیٹ ویب پرائز کا حقدار ثابت کرتی ہے جو اس قسم کی صحافتی کارکردگی دکھانے والوں کے اعزازلئے ہی مقررکیا گیا ہے۔
اسدہاشم نے ایک طرف پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے معاملہ کی صحافتی چھان بین کے لئے ملک کے طول وعرض خصوصاًساؤتھ وزیرستان کے دورے کئے اور بذات خودحقائق اکٹھے کیئے تو دوسری طرف ملک میں رائج توہین مذہب قوانین کے غلط استعمال کی زد میں آئے ہوئے مظلوم اور بے قصورمذہبی اقلیتوں کی حمایت میں بھی آوازبلندکی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ہی موضوعات انتہائی حساس اورمتنازعہ بلکہ خطرناک نوعیت کی حیثیت کے حامل بن چکے ہیں۔
اسد ہاشم کو اگلے ماہ مارچ میں ہونے والی ایک پروقارتقریب میں اس منفرد ایوراڈ سے نوازاجائے گا۔اے ایف پی کے مطابق اسدہاشم نے ایوارڈملنے کی اطلاع پر شکریہ کااظہارکرتے ہوئے کہا کہ ایوارڈ محض ان کی ذاتی صحافتی مساعی کے اعتراف کے لئے نہیں بلکہ ان تمام پاکستانی صحافیوں کے لئے ہے جوگزشتہ ایک سال سے بدترہوتے مسدودصحافتی ماحول میں بھی اپناکام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
https://www.afp.com/en/inside-afp/pakistan-journalist-wins-afps-kate-webb-prize
الجزیرہ نیوزنیٹ ورک سے بات کرتے ہوئے اسد ہاشم نے کہا کہ انسانی حقوق کے بارہ میں لکھنا،خصوصاًپشتون حقوق تحفظ موومنٹ تنظیم کے بارہ میں رپورٹنگ کرنا بہت ہی مشکل کام ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں صحافیوں کوپاکستانی حکام کی طرف عائدکردہ بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے الجزیرہ کا بھی شکریہ اداکیا کہ وہ انسانی حقوق سے متعلق سچے حقائق شائع کرتا ہے ،ایسے سچے حقائق اور حقیقی کہانیاں جوفرضی نہیں بلکہ حقیقی انسانوںکی کہانیاں ہیں۔اور یہ کہانیاں حقیقی انسانوں کوہی متاٗثرکرسکتی ہیں۔
اسد ہاشم نے الجزیرہ کے علاوہ اپنے ساتھی سعودمحسودکا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کی مدد اور رہنمائی کے بغیران کے لئے اس قسم کی رپورٹنگ کرنا ناممکن تھا۔
https://www.aljazeera.com/news/2019/01/al-jazeera-reporter-asad-hashim-wins-afp-kate-webb-prize
اسد ہاشم ایک امریکی یونیورسٹی سے الیکٹرک انجنئیرنگ کی ڈگری لینے کے بعد وطن واپس لوٹ آئے تھے۔انکے اندر چھپے پیدائشی طورپربے باک اور باصلاحیت صحافی نے انہیں پاکستانی صحافت کی وادی پرخارکی خاک چھاننے پہ مجبورکردیا۔
آپ دی فرائی ڈے ٹائمز کے فیچرز ایڈیٹر رہے،جیو نیوز اور پھر ڈان نیوز کے رپورٹڑ،کاپی ایڈیٹراور ایڈیٹرکے طورپربھی کام کرچکے ہیں۔
آپ کا ارادہ ہے کہ وہ لندن کے سکول آف اورئینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز سے انتھرپولوجی آف میڈیا میں ماسٹرز کی سندحاصل کریں۔
انسانی حقوق کی پامالی اور پاکستانی سیاست کو ہلادینے والے طوفانوںسے بے چین ہوجاتے ہیں۔اور یہی بے چینی ان کی تحقیقاتی صحافت کے لیئے مہمیز ثابت ہوتی ہے۔
اپنے بارہ میں کہتے ہیں کہ جہاں بھی معاملات دھماکہ خیزی دکھاتے نظرآئیں گے، اسد ہاشم کو آپ وہیں موجودپائیں گے !۔
٭