پاکستان کے کئی سیاسی حلقے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ پیر کے روز ہونے والی ملاقات کو غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان ميں سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں بڑھتے ہوئے روابط عمران خان کی حکومت کے ليے مشکلات میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے انتہائی سخت حفاظتی انتظامات میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں پیر کو سابق وزير اعظم نواز شریف سے ایک گھنٹے پر محیط ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے نواز شریف کی عیادت کے ساتھ ساتھ، ان سے ملک کی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال بھی کیا۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان مسلم ليگ نون کے سابق سربراہ نواز شريف کافی بیمار لگ رہے تھے۔ بلاول کے بقول، دل کے مریض کا علاج اسے ذہنی دباؤ میں رکھ کر نہیں کیا جا سکتا۔ بلاول کا مزيد کہنا تھا کہ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے شخص کو جیل میں اس طرح رکھا گیا ہے۔
ان کے بقول قیدی کو علاج کی سہولتیں دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ میاں نواز شریف کو ان کی مرضی کے مطابق علاج کی سہولت فراہم کرے، ’’کسی کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونی چاہیے اور کسی کے بے عزتی نہیں ہونی چاہیے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اگرچہ میاں نواز شریف کے ساتھ ہونے والی یہ ملاقات خالصتاً ان کی تیمار داری کے حوالے سے تھی لیکن اس ملاقات میں میثاق جمہوریت پر بھی بات ہوئی۔ بلاول بھٹو زرداری نے بتایا کہ دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر میثاق جمہوریت کو مضبوط بنایا جائے گا۔ بلاول نے بتايا کہ نواز شریف اپنے اصولوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔
تھر میں چند روز پہلے عمران خان کی طرف سے بلاول بھٹو کے خلاف کی جانے والی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاک بھارت کشیدگی میں قومی سطح پر جو اتحاد کی فضا بنی تھی، اسے ختم کر دیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہيں کہ یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی ناکامی ہے کہ دونوں جماعتوں نے میثاق جمہوریت پر پوری طرح عمل نہیں کیا تاہم تاہم پیپلز پارٹی یہ سوچ رکھتی ہے کہ اس پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔
ادھر نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز شریف نے اس ملاقات کے فوراً بعد اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں بلاول بھٹو کی طرف سے اچھے خیالات کے اظہار پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا کہ بلاول کی مدبرانہ سوچ قابل قدر ہے۔
یاد رہے کہ کرپشن کیس میں کوٹ لکھپت جیل میں سات سال قید کی سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف دل اور گردے کی بیماریوں ميں مبتلا ہيں۔ وہ جیل سے باہر کسی بھی ہسپتال میں منتقل ہونے سے انکار کر چکے ہیں اوران کا کہنا ہے کہ حکومت ہسپتالوں میں انہیں لے جا کر صرف ہمدردی دکھا رہی ہے اور ایک کے بعد دوسرا میڈیکل بورڈ بنایا جا رہا ہے لیکن بورڈز کی تجاویز پر عمل نہیں کیا جا رہا۔
دوسری طرف پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ پنجاب حکومت نواز شریف کے علاج کے لیے ہر ممکن سہولتیں فراہم کرنے کو تیار ہے لیکن کسی بھی علاج کے لیے انہیں نواز شریف کی اجازت اور آمادگی درکار ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی کا کہنا تھا کہ نواز شريف اور بلاول بھٹو کی ملاقات سے یہی تاثر ملا ہے کہ مرکز میں اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں میں فاصلے کم ہونا شروع ہو گئے ہیں اور رابطے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر آنے والے دنوں میں ان بڑھتے ہوئے رابطوں کے نتیجے میں یہ دونوں جماعتیں مشترکہ اہداف، مشترکہ لائحہ عمل اور مشترکہ اقدامات پر بھی متفق ہو گئیں، تو پھر عمران حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’گرچہ ملکی حالات کسی بڑی محاذ آرائی کے متحمل نہیں ہو سکتے تاہم پھر بھی حکومت پر آنے والے دنوں میں نیب قوانین میں تبدیلی، نواز شریف کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے کے حوالے سے دباؤ بڑھ سکتا ہے‘‘۔
سینٹ میں پیپلز پارٹی اور نون لیگ اکثریت میں ہیں۔ قومی اسمبلی میں بھی ان کے بغیر قانون سازی آسان نہیں۔ اگرچہ ابھی تو یہ دونوں سیاسی جماعتیں کسی احتجاجی تحریک پر یکسو نہیں ہیں، اگر بات آگے بڑھی تواس بات کا بھی امکان ہے کہ کچھ عرصے بعد یہ جماعتیں دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ کر دیں۔
دوسری جانب دفاعی تجزیہ نگار برگیڈيئر (ر) فاروق حمید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نواز شریف کی بیماری ایک قومی مسئلے کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے اس میں کوئی بعید نہیں ہے کہ نواز اور بلاول ملاقات کے بعد ہونے والی آرمی چیف جنرل قمر جاويد باجوہ اور وزیر اعظم عمران خان کے مابین ہونے والی ملاقات میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا ہو۔
♦
One Comment