ذوالفقار علی زلفی
عمومی بیانیہ ہے سندھ صوفیوں کی سرزمین ہے اور یہاں مذہبی ہم آہنگی مثالی ہے ـ تاریخ البتہ اس دعوے کی صحت کو تسلیم نہیں کرتی ـ
غالباً ڈاکٹر مبارک علی کا مضمون ہے “کیا ناؤ مل غدار تھا؟” مانا جاتا ہے تالپور دور میں کراچی کے ہندو سیٹھ ناؤمل ہوت چند کا زبردستی ختنہ کیا گیا مسلمان سازی کے اس واقعے سے پہلے لیاری کی اکثریتی مسلمان آبادی اور کھارادر کے ہندو اکثریت کے درمیان کشیدگی کا بھی ذکر ملتا ہے ۔ اس کشیدگی کی وجہ ناؤمل کے بھائی پر لگا توہینِ رسالت کا الزام تھا ـ ہندو دوکان داروں نے احتجاجاً مسلمانوں کو چیزیں بیچنا بند کیں اور مسلمانوں نے ردعمل میں لیاری میں واقع میٹھے پانی کے کنوؤں کو ہندوؤں کے لئے بند کردیا ـ اس کشیدگی کا نتیجہ 1833 یا شاید 1832 میں ناؤمل ہوت چند کے ختنے کی صورت نکلا ـ
ناؤمل نے اس توہین کا بدلہ سندھ پر انگریزی قبضے میں معاونت سے لیا ـ سو سال بعد 1933 کو نتھو رام کی کتاب “ہسٹری آف اسلام” ایک دفعہ پھر کراچی میں ہندو مسلم کشیدگی کا سبب بنی ـ ہری پور ، ہزارہ ڈویژن سے ہجرت کرکے لیاری بسنے والے عبدالقیوم خان نے بھری عدالت میں نتھو رام کا قتل کردیا ـ عبدالقیوم پہلے غازی پھر پھانسی پانے کے بعد شہید قرار پائے ـ ان کے جنازے پر لیاری میں انگریز پولیس اور مسلمانوں کے درمیان خونریز تصادم ہوا ـ
قیامِ پاکستان سے قبل ہندو سندھی، سندھ کا متمول ترین طبقہ تھا ـ میروں کے دور میں اور اس سے بھی پہلے دولت مند ہونے کے باوجود وہ سماجی تقسیم میں دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے تھے ـ ہندو گھوڑے کی سواری کا حق نہیں رکھتے تھے ان پر لازم تھا وہ صرف گدھے کی سواری کریں نیز مسلمان سوار کو دیکھ کر انہیں تعظیماً سر جھکانے کا حکم بھی دیا گیا تھا ـ تقسیم کے بعد متمول ہندو بھارت ہجرت کرگئے اور پیچھے رہ گئے وہ محنت کش جنہیں مسلمان سازی کے تجربے سے گزارا جارہا ہے ـ
کراچی والوں کے لئے “نو گو ایریا” کی اصطلاح شاید نئی ہو ـ یہ اصطلاح نوے کی دہائی میں کراچی آپریشن کے دوران میڈیا کے ذریعے سامنے آئی مگر شمالی سندھ کے متعدد علاقے کراچی آپریشن سے کئی سال قبل “نو گو ایریا” بن چکے تھے ـ خاص طور پر ضلع گھوٹکی میں واقع “درگاہ بھرچونڈی شریف” اور اس کا گرد و نواح ـ عام شہری ایک طرف پولیس بھی وہاں جانے سے قبل سو دفعہ سوچتی تھی ـ یہ سلسلہ تاحال برقرار ہے ـ
درگاہ بھر چونڈی کی وجہ شہرت مسلمان سازی ہے ـ اس درگاہ کے پیروں نے ہندوؤں کو “رضاکارانہ” طور پر مسلمان بنانے کا سمجھ لیں ٹھیکہ لے رکھا ہے ـ زیادہ تر کیسز میں نوجوان ہندو لڑکیاں مسلمان بنا کر بیاہی جاتی ہیں ـ دیکھا جائے تو یہ ایک منظم نسل کشی ہے مگر شمالی سندھ کے اکثر “صوفی منش” سندھی اسے اسلام کی خدمت سمجھتے ہیں ـ منظم نسل کشی کے اس طوفان کو روکنا ہندوؤں کے بس میں نہیں ہے اس لئے اطلاعات کے مطابق ہزاروں ہندو خاندان “جنت” جانے سے زیادہ بھارت ہجرت کرجانے کو ترجیح دے چکے ہیں ـ یہ ہجرت تقسیمِ ہند کے مقابلے میں دوگنا زیادہ ہے ـ
درگاہ کے موجودہ سربراہ میاں عبدالحق عرف میاں مٹھو کبھی “سیکولر” پیپلزپارٹی کے ایم این اے تھے آج کل وہ نیا پاکستان بنانے والے قافلے کے ہمراہ ہیں ـ میاں مٹھو پر امیر ہندوؤں کے اغوا برائے تاوان، زمینوں پر قبضے یا قبضہ گیری میں معاونت فراہم کرنے کے الزامات بھی عائد کئے جاتے ہیں ـ تاہم پیر صاحب ان الزامات سے انکار کرتے ہیں ـ
جبری تبدیلیِ مذہب کو بھی وہ تسلیم نہیں کرتے ان کے مطابق ہندو رضاکارانہ طور پر اسلام قبول کرتے ہیں اور ہم صرف انہیں قانونی، سماجی اور مذہبی تحفظ دیتے ہیں ـ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں کے دوران کم از کم سو ہندو لڑکیاں درگاہ کے توسط سے اسلام کے دائرے میں داخل کی جاچکی ہیں ـ
قانونی تحفظ کا بھرپور مظاہرہ رنکل کماری کیس میں دیکھنے میں آیا جب درجنوں مسلح افراد عدالت کے باہر نعرہ تکبیر کے فلک شگاف نعرے لگا رہے تھے۔
گزشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں نومسلم رینا اور روینہ کے بزرگ والد درگاہ کے احاطے میں چلا چلا کر اپنے سینے کے لئے بندوق کی گولی مانگ رہے تھے ـ درگاہ بھر چونڈی شریف چونکہ صرف تبدیلیِ مذہب پر یقین رکھتی ہے اس لئے انہیں گولی تو نہ ماری گئی لیکن قوی امید ہے کہ اگر وہ مسلمان بننے کی خواہش کا اظہار کریں تو اس پر “ہمدردانہ” غور ہوسکتا ہے۔
کہنے کو سندھ پر پیپلزپارٹی کی حکومت ہے لیکن خاطر جمع رکھیے سندھ درجنوں “نو گو ایریاز” میں بٹا ہوا ہے ـ ان نو گو ایریاز میں گھسنا دور نئے نئے انقلابی بلاول بھٹو زرداری ٹوئیٹ کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتے ـ نیم جاگیردارانہ و نیم سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں یہی تو ہوتا ہے ـ یقین نہ آئے تو ہندی فلم “نشانت” دیکھ لیں ۔
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں ہندو بچیوں کو زبردستی مسلمان بنانے کے پیچھے اسلام کی خدمت کا کوئی تصور ہے تو یقین جانیے آپ بے وقوفی کی حد تک سادہ ہیں ـ اس گندے دھندے کے پیچھے ایک پوری کاروباری مافیا ہے اور اس مافیا کا اسلام سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ـ
اس مافیا کی جڑیں پورے سسٹم میں پھیلی ہیں ـ بچیاں اغوا کے بعد “جنسی افتتاحی تقریب” کے کربناک مرحلے سے گزرتی ہیں ـ یہ مرحلہ ان کی خوداعتمادی اور شخصیت کو چکنا چور کرکے انہیں نفسیاتی لحاظ سے لاچار بنا دیتی ہے ـ
زیادہ احتجاج ہو تو نفسیاتی طور پر شکست خوردہ لڑکی کو ڈرا دھمکا کر اور بعض اوقات اس کے خاندان کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دے کر میڈیا/پولیس/عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جہاں وہ کہتی ہے :۔
“بسمہ اللہ الرحمن الرحیم ـ میں فلانی، اپنی مرضی سے مسلمان ہوکر فلاں سے نکاح کرچکی ہوں، اب میرا اسلامی نام فلاں ہے اور میں اپنے غیر مسلم والدین کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی” ـ
قصہ بظاہر یہاں ختم ہوجاتا ہے مگر لڑکی کی سزا جاری ہے ـ کچھ عرصے بعد وہ ہندی فلم “لکشمی” کی مرکزی کردار بن جاتی ہے ـ وہ جاگیرداروں ، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں وغیرہ کو کچھ کچھ گھنٹوں کے لئے بیچی جاتی ہے ـاچھی طرح استعمال کرنے کے بعد وہ بیرونِ پاکستان قائم ان عیاشی کے اڈوں کو فروخت کردی جاتی ہے جہاں “دیسی” مال کھرے منافعے کے ساتھ بکتا ہے ـ
بقول رام گوپال “سب گندا ہے، پر دھندا ہے“
♦