بھارت: عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کردیا گیا۔ اسی کے ساتھ مثالی ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہوگیا جس کی رو سے اب بیشتر انتظامی اختیارات الیکشن کمیشن کو حاصل ہوگئے ہیں۔

بھارت میں عام انتخابات سات مرحلوں میں ہوں گے۔ پہلے مرحلے کے لیے پولنگ گیارہ اپریل کو ہوگی جب کہ آخری مرحلے کے لیے انیس مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ووٹوں کی گنتی 23 مئی کو ہوگی اور گنتی کا یہ عمل ستائیس مئی کو مکمل کرلیا جائے گا۔

چیف الیکشن کمشنر سنیل اروڑہ نے آج دس مارچ کی شام کو یہاں بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا کی پ543 نشستوں کے لیے ہونے والے عام انتخابات کے پروگراموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ آج سے ہی مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہوگیا ہے اور ا س پر سختی سے عمل درآمد ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اس مرتبہ بھی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ذریعہ ہی الیکشن کرائے جائیں گے تاہم اس مرتبہ پہلی بار ان مشینوں میں امیدواروں کی تصویریں بھی ہوں گی۔

خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتیں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں گڑبڑی کرنے کے الزامات عائد کرتی رہی ہیں۔ اپوزیشن نے الزام لگایا تھا کہ الیکشن کمیشن وزیراعظم نریندر مودی کے پروگراموں کی وجہ سے جان بوجھ کر تاریخوں کے اعلان میں تاخیر کررہا ہے۔ وزیر اعظم اب پروگراموں میں شرکت تو کرسکیں گے تاہم ووٹروں کو لبھانے کے لیے کوئی اہم اعلان نہیں کرپائیں گے۔

انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرر ہی ہے۔

اس دوران الیکشن کمیشن نے کسی سیاسی جماعت کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ اپنے امیدواروں کے انتخابی مہم میں فوجی جوانوں کی تصویروں کے استعمال پر روک لگائیں۔ کمیشن نے اس حوالے سے تمام تسلیم شدہ سیاسی جماعتوں کے صدور اور ان کے جنرل سکریٹریز کو خط بھی لکھا ہے۔

دراصل وزارت دفاع نے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر کہا تھا کہ سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما فوجی جوانوں کی تصویروں کا استعمال کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں کمیشن کو ہدایت جاری کرنا  چاہیے۔ کمیشن نے اسی خط کی بنیاد پر مذکورہ ہدایت جاری کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا، ’’آرمی چیف یا کسی دیگر فوجی اہلکار کی تصویر اور دفاعی افواج کے کام کی تصویریں کسی بھی طرح سے اشتہار، تشہیر ، مہم یا کسی دیگر طریقے سے استعمال نہ کی جائیں۔

یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ کسی ملک کے سلامتی دستے سرحد، سکیورٹی اور سیاسی نظام کے محافظ ہوتے ہیں۔ وہ ایک جدید جمہوریت میں غیر جانبدار ہوتے ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اور رہنما اپنی سیاسی مہم میں مسلح افواج کا کوئی حوالہ دیتے ہوئے نہایت احتیاط سے کام لیں‘‘۔

پچھلے دنوں بی جے پی دہلی کے صوبائی صدر اور ممبر پارلیمنٹ منوج تیواری کو اپوزیشن جماعتوں کی شدید نکتہ چینی کا اس وقت سامنا کرنا پڑا تھا جب انہوں نے فوجی یونیفارم میں ایک سیاسی ریلی نکالی تھی۔ اپوزیشن نے وزیر اعظم نریندر مودی کی اس تقریر پر بھی اعتراض کیا تھا جب ایک جلسہ عام کے دوران اسٹیج پر پس منظر میں پلوامہ حملہ میں مارے گئے فوجی جوانوں کی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔

اس دوران بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ایڈمرل (ریٹائرڈ) لکشمی نارائن رام داس نے پا کستان کے بالاکوٹ پر ایئر اسٹرائک اور فوجی کارروائیوں کو سیاسی فائدے اور تشہیر کے لیے فوج کے استعمال پر سخت ناراضی ظاہر کی ہے۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کو ایک خط لکھ کر کہا، ’’یہ ناقابل قبول ہے۔ لوک سبھا الیکشن کے مدنظر سیاسی جماعتیں فوج کا استعمال کر کے اپنا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہیں جب کہ یہ چیزیں ہماری فورسز کی بنیادی خصوصیات کو ختم کرسکتی ہیں۔ ہماری مسلح افواج کا ڈھانچہ جس اقدار اور ماحول سے وابستہ ہے وہ غیر سیاسی اور سیکولر رہا ہے‘‘ ۔

انہوں نے لکھا ہے کہ وہ یہ خط فوج کے دیگر سابق افسران کی جانب سے بھی لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن سے فوج کا سیاسی استعمال بند کرنے کے لیے جلد سے جلد قدم اٹھانے کی بات کہی ہے۔

سوراج انڈیا نامی ایک سیاسی جماعت کے قومی صدر یوگیندر یادو نے بھی بی جے پی کی طرف سے قومی دارالحکومت میں مختلف مقامات پر لگائے گئے ان پوسٹروں کی تصویریں ٹوئیٹ کر کے، جن میں بھارتیہ فضائیہ کے ونگ کمانڈر ابھی نند ورتھمان،کی تصویریں استعمال کی گئی تھیں، الیکشن کمیشن سے پوچھا تھا کہ ’’کیا کمیشن نے کسی فوجی کی تصویرکو سیاسی پوسٹر میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی ہے‘‘۔

سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی کا اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’الیکشن کمیشن کسی بھی وقت سیاسی جماعتوں کو ہدایت جاری کرسکتا ہے اور حکومتی اہلکاورں کو حکم دے سکتا ہے لیکن وہ عام طورپر مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کا انتظار کرتا رہتا ہے تاکہ وہ ضروری اختیارات اور اپنے فیصلے کو نافذ کرنے کے لیے حکومتی مشینری کا استعمال کرسکے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’سیاسی جماعتوں کو بھی مثالی ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کا انتظار نہیں کرنا چاہیے اور کمیشن کو یہ بات اجاگر کرنا چاہیے‘‘ ۔

DW

Comments are closed.