خالد تھتھال
تُوران دُرسُن ایک ترک امام، مفتی، مصنف اور دانشور تھے۔ اُن کا تعلق اہل تشیع کے اثنا عشری فرقے سے تعلق تھا۔ وہ اسلام کے ابتدائی دورکے آزاد فکر (فری تھنکر) ابن راوندی سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ تُوران نے اسلام کے علاوہ دیگر ابراہیمی مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا تھا ۔اسلام سے بغاوت کے کچھ عرصہ بعد تک تُوران کا خدا پر تو عقیدہ برقرار رہا لیکن وہ اسلام سے کنارہ کش ہو گئے، بعد میں ایگناسٹک اور پھر ملحد ہو گئے۔ ملحد ہونے کے بعد انہوں نے پیغمبر اسلام اور اسلام پر شدید تنقید کی جس کی وجہ سے انہیں بنیاد پرست مسلمانوں کی جانب سے اکثر دھمکیوں کا سامنا ہوا جو 4 ستمبر 1990ء میں ان کے گھر کے سامنے ان کی موت پر منتج ہوا۔
تُوران 1934ء میں ترکی کے سیواس صوبہ کے شہر شارکشلا کے پاس واقعہ گُمُستیپے نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ان کی ماں ایک کرد اور باپ ترک تھے۔ وہ ابھی پانچ سال کے تھے کہ ان کا خاندان آرے نامی ضلع کے گاؤں تُوتک میں منتقل ہو گیا۔ جہاں ان کے دادا کی زمینیں تھیں۔
باپ نے اپنی آبائی زمین پر کھیتی باڑی شروع کر دی، زندگی عُسرت میں گزر رہی تھی۔ لیکن باپ کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا مذہبی تعلیم حاصل کرے۔ اور بصرہ و کوفہ میں مقیم شیعہ علماء جیسا ایک نامور مذہبی عالم بنے۔
چنانچہ غربت کے باوجود باپ نے تُوران کو قران اور دیگر مذہبی علوم کی تعلیم کے لیے مختلف مدارس میں بھیجا۔ جہاں انہوں نے نامور علماء سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی۔ توران کی تعلیم صرف موس، آرے اورادانا جیسے شہروں کے مدارس تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ انہیں اگر کسی گاؤں میں کسی مذہبی عالم کا علم ہوا تو وہ اس سے علم حاصل کرنے کے لیے گاؤں تک جا پہنچے۔ توران کی غربت کو مد نظر رکھتے ہوئے سب علماء نے انہیں مفت تعلیم دی۔ لیکن ایک عالم مفت تعلیم دینے پر رضامند نہ تھے۔ چنانچہ توران نے عرق بیچنا شروع کیا اور اپنے اس استاد کو معاوضے کے طور پر 100 لیرا ادا کیا۔
تعلیم مکمل ہونےکے بعد تُوران نے مفتی بننے کا امتحان دیا جس میں وہ با آسانی کامیاب ہو گئے۔ لیکن اُن کے پاس صرف مدارس کی تعلیم تھی، وہ کبھی کسی معمول کے سکول نہیں گئے تھے۔ سکول کی تعلیم نہ ہونا ان کے مفتیت پر فائز ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ چنانچہ انہوں نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر مطلوبہ تعلیم حاصل کی اور یوں 1958ء میں بالتالے نامی قصبے میں بطور نائب مفتی ان کا تقرر ہوا۔
ابھی تُوران نائب مفتی مقرر ہی ہوئے تھے کہ انہیں لازمی فوجی تربیت کے لیے فوج میں جانا پڑا۔ فوجی تربیت کے بعد انہوں نے استنبول کے مدرسہ میں کچھ عرصہ پڑھایا اور بعد میں مفتی کے طور پر ان کا تقرر ہو گیا اور وہ گیمیریک، آلتندا، سیواس میں مفتی رہے۔ ان کی مفتیت کا عرصہ 1958ء سے 1966ء تک رہا۔
اپنے مفتیت کے زمانے میں تُوران نے اپنے مذہبی فریضے کی ادائیگی کے علاوہ عام کاموں پر بھی توجہ دی۔ اور اپنے عہدے کو استعمال کرتے ہوئے سیواس کے علاقے میں درخت لگانے کی مہم کا آغاز کیا۔ مفتی کی رہائش گاہ کو ایک ہسپتال میں تبدیل کرنے کے منصوبے کو کامیابی سے آگے بڑھایا۔ ہسپتال بنانے کی خاطر ارد گرد کے دیہات سے غلہ جمع کیا۔ آئما کو مذہب سے ہٹ کر دیگر علوم کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے سینما اور کانفرنسوں کو استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ اپنی ان سرگرمیوں کی وجہ سے جہاں سیواس کے علاقہ میں تُوران کے بہت سے حمایتی پیدا ہوئے وہیں انہیں دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا جس کی وجہ سے وہ سینوپ نامی شہر میں منتقل ہو گئے۔
توران کی زندگی میں وحدانی مذاہب کی کتابوں کو پڑھنے کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کتابوں کو پڑھنے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ عرصہ بعد پوپ کو ترکی آنا تھا، جہاں تُوران نے بھی ان سے ملاقات کرنا تھی۔ ۔ تُوران کی خواہش تھی کہ جب وہ پوپ سے ملیں تو پوپ کے سامنے وہ علمی طور خود کو کمزور محسوس نہ کریں، بلکہ پوپ کو احساس ہو کہ وہ کسی عام مفتی سے نہیں بلکہ ایک دانشور مفتی سے مل رہا ہے۔ چنانچہ انہوں نے عیسائیت کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔
اس سے پہلے تُوران کا دیگر مذاہب کے متعلق جو بھی علم تھا، اس کا منبع صرف اسلامی کتب تھیں۔ لیکن اب اُن کا سامنا ایسے دعوؤں سے تھا جو ان کی اپنی مذہبی تعلیم کے دوران سیکھے گئے دعوؤں سے مختلف تھے۔ مختلف مذاہب، ان کی تعلیمات اوربیان کی گئی کہانیوں کا تقابلی مطالعہ تُوران کے مذہبی نظریات و عقائد کے لیے زہر قاتل ثابت ہوا۔ وہ اپنی تمام مذہبی تعلیم کے بر عکس مذہب سے برگشتہ ہو گئے۔ اسی وجہ سے انہوں نے مفتیت کا عہدہ چھوڑ دیا۔
اپنے مذہبی خیالات کے متعلق تُوران کا کہنا ہے کہ ”میرے خدا کے متعلق خیالات ہمیشہ باغیانہ رہے لیکن الحاد کی طرف میرا سفر بتدریج ارتقائی مراحل طے کرتے ہوا۔۔۔۔۔۔میرے پاس یہودیت اور عیسائیت کے متعلق پہلے سے علم تھا، لیکن اسلامی تعبیر کے طور پر۔ میں ان کا علم اُن کے بیاں کردہ ماخذوں کے مطابق نہیں رکھتا تھا۔ میں 1960ء میں ان کے ماخذوں سے آگاہ ہوا“۔
اسلام سے بغاوت کے کچھ عرصہ بعد تک تُوران ایک ایگناسٹک رہے ، ان کا خدا پر تو عقیدہ برقرار رہا لیکن اسلام سے کنارہ کش ہو گئے۔ اپنے الحاد کے سفر سے پہلے اُن کا کہنا تھا۔”اگر کسی خدا کا کوئی وجود ہے تو وہ محمد کا خدا نہیں ہو سکتا“۔
تُوران کو اس بات کا بہت دکھ تھا کہ ان کے بچپن اور جوانی کے قیمتی سال ایک جھوٹ کی نذر ہو گئے۔ چنانچہ انہوں نے غصے سے پیغمبر اسلام کے متعلق کہا کہ ” اُس کی وجہ سے کتنے لوگ اپنا بچپن مناسب انداز میں نہ گزار سکے۔ اس کی غلطیوں کی وجہ سے کتنے لوگ مصائب کا شکار ہوئے۔ کتنے لوگ اس کی وجہ سے غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط گردانتے ہیں۔ اور انسانی جذبات اور تخلیقات کے مختلف پہلوؤں سے نمو نہ پانے کی وجہ بھی وہی ہے“۔
مفتیت کا عہدہ چھوڑنے کے بعد تُوران کو گو معاشی تنگدستی کا سامنا ہوا۔ لیکن ان کے لیے یہ بات زیادہ اہم تھی کہ ان کے نظریات اور افعال میں تضاد نہ ہو اور اسی تضاد سے بچنے کے لیے انہوں نے مفتی کا عہدہ چھوڑا تھا۔
مفتیت کے زمانے میں ان کے جو دوست بنے تھے، ان میں سے ایک کی مدد سے انہیں ترک ریڈیو وٹیلی ویژن کارپوریشن ( ٹی آر ٹی) میں کام مل گیا جو شروع میں تو دفتری نوعیت کا تھا لیکن امتحان پاس کر لینے کے بعد انہیں پروگرام پروڈیوسر کا کام مل گیا۔ ان کی اہم پروڈکشن ” ترک تاریخ میں، نسل انسانی آغاز سے“ اور ”شام کی جانب“ ہیں۔ انہوں نے بہت محنت اور تحقیق کے بعد پہلی قومی اسمبلی سے پہلے اور بعد“ نامی پروگرام بنایا لیکن اُسے نشر نہ کیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے 1982ء میں سولہ سال ملازمت کے بعد ٹی آر ٹی کو چھوڑ دیا۔
سال1987ء میں تُوران دوعو پیرنیچیک نامی قوم پرست اور سوشلسٹ سیاستدان سے متعارف ہوئے اور ان کے ” 2000ء کی جانب“ نامی رسالے میں ” دینی علم “ کے عنوان کے تحت لکھنا شروع کیا۔ بعد میں انہوں نے یُزیل (صدی) تھیوری (نظریہ) ساجاک ( منڈیر) نامی رسالوں میں بھی لکھا۔ اسی دوران انہوں نے مقدمہ ابن خلدون کا ترکی ترجمہ کیا اور اس کے علاوہ مذہب پر بہت زیادہ تنقیدی کتابیں لکھیں۔ اسلام پر اس قسم کی شدید تنقید تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنی آٹھ جلدوں پر مشتمل قرانی انسائیکوپیڈیا مکمل ہی کر پائے تھے کہ قتل ہوئے۔
چار ستمبر 1990ء تُوران کو استنبول میں ان کے گھر کے باہر دو اسلحہ برداروں نے گولیوں سے ہلاک کر دیا گیا۔ ان کے جسم پر سات گولیاں ماری گئیں۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کی الماری سے ان کی کئی کتابیں غائب تھیں اور وہاں ”حزب اللہ کی مقدس دہشت گردی“ نامی کتاب موجود تھی جس کے مطابق تُوران کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ یہ کتاب تُوران کی ملکیت نہیں تھی، بلکہ دہشت گردوں نے اس کتاب کو ایک پیغام کے طور پر ان کے گھر میں چھوڑا تھا۔
تفتیش کے نتیجے میں پندرہ لوگ گرفتار ہوئے لیکن انہیں پہلی پیشی پر ہی رہا کر دیا گیا۔ 1996 میں عرفان چارجے کو قتل کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا جو مارچ 1990 میں صحافی چیتن امیج اور ایران کی جماعت مجاہدین خلق کے انقرہ میں مقیم نمائندے اکبر قربانی کے اغوا کے سلسلے میں بھی مطلوب تھا۔ تفتیش سے پتہ چلا کہ چارجے جس کا کوڈ نام میسوت ( مسعود) تھا، کا ایرانی حکومت سے رابطے تھے اور اس نے ایران سے ہی تربیت لی تھی۔ چارجے جس کا تعلق اسلامی حارکت اورگتو ( اسلامی حرکت تنظیم) سے تعلق تھا۔ اسی نے ”قران اور ہمارے نبی کی بے حرمتی“ کرنے پر تٗوران کے قتل کا حکم صادر کیا تھا۔
جولائی 2000ء میں چارجے کو موت کی سزا اور چار ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، چارجے کی موت کی سزا اپیل کے نتیجے میں عمر قید میں بدل دی گئی، لیکن چارجے کے حکم کی تعمیل کرنے والا قاتل مظفر دالماز ابھی تک مفرور ہے۔
”میسوت (عرفان چارجے) ایک لکھاری ہے۔ اس نے کہا کہ تٗوران دُرسُن جس نے قرآن اور ہمارے نبی کی بے حرمتی کی ہے ، اسے قتل کر دیا جائے۔ تو ایک آدمی جس کا کوڈ نام کیمال ہے میں نے اس کے سامنے اعتراض کیا۔ کہ اگر ہم نے اس شخص کو قتل کیا تو اخبارات میں اس بات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جائے گا، چنانچہ ہم متفق ہو گئے اور جب ہم نے اپنی بات میسوت تک پہنچائی تو وہ ہمیں پندرہ روز تک نہ ملا۔ تُوران دُرسُن کے قتل کے متعلق میسوت نے تکرار کی، میں اور کیمال نے اس مشن کی تکمیل کے لیے معلومات مہیا کیں“ (روزنامہ ملّت، 6 مارچ 1997ء)۔
تٗوران کے اعزاز میں 19992ء میں تٗوران دُرسُن ریسرچ اینڈ ریویو ایوارڈ کے نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا کیا گیا جس کا مقصد ہر سال ایک ایوارڈ دینا تھا۔ سرمائے کی کمی کی وجہ سے یہ ایوارڈ 2002ء کے بعد تقسیم نہ ہو سکا
تُوران نے اپنی زندگی میں درج ذیل کتابیں لکھیں۔
۔۱۔اللہ
۔۲۔قران
۔۳۔ یہ دین 1: ( اللہ اور قران)۔
۔۴۔ یہ دین 2: (حضرت محمد)۔
۔۵۔یہ دین 3: (اسلام میں معاشرہ اور سیکولرازم)۔
۔۶۔یہ دین 4: (تیبو کا قیام)۔
۔۷۔مذہب اور سیکس
۔۸۔دعا
۔۹۔کیا کائنات ایک مذاق ہے۔
کُلے تھین، توُران کی سوانح جس میں انہوں نے اپنی مذہبی تعلیم کا ذکر کیا ہے، اس کتاب کے بہت سے ایڈیشن شائع ہوئے جن میں ایک کامک ایڈیشن بھی تھا۔
شریعت یوں ہے
معروف لوگوں کے نام خطوط
اسلام اور رسالہ نور
مقدس کتابوں کے مصادرتین جلدیں
قرآن کا انسائیکلو پیڈیا آٹھ جلدیں میں۔
مقدمہ ابن خلدون کا دو جلدوں میں ترکی ترجمہ
تٗوران کے اعزاز میں 1992ء میں تٗوران دُرسُن ریسرچ اینڈ ریویو ایوارڈ کے نام سے ایک ایوارڈ کا قیام کیا گیا جس کا مقصد ہر سال ایک ایوارڈ دیا جاتا ہے۔ یہ 2002ء میں ختم ہو گیا۔