مذاکرات کا عمل اور حکمت عملی 

 ایمل خٹک 

قبائلی پارلیمینٹرینز کی جانب سے پشتون تحفظ موومنٹ کو صوبائی حکومت کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش ایک خوش آئند بات ہے ۔ اٹھارہ اراکین پارلیمنٹ نے خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ  کو چھبیس مارچ کو سول آفیسر میس پشاور میں پشتونوں کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کیلئے جرگہ کی دعوت دی ہے ۔ 

آئین اور قانون پر کاربند اور پرامن جہدوجہد پر یقین رکھنے والی تحریکیں مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کا دروازہ ہمیشہ کھلا رکھتی ہیں۔ اور اپنے مطالبات منوانے کیلئے تمام تر پرامن اور قانونی ذرائع بروئے کار لاتی ہیں ۔ مطالبات کی حل کیلئے کسی بھی فورم میں جانا اچھی سیاسی حکمت عملی ہوتی ہے   اس میں شک نہیں کہ قبائلی پارلیمینٹرینز ریاست کی ایماء یا درخواست پر آگے آئے ہونگے یا ان کی مصالحتی کوششوں کو ریاستی اداروں کی حمایت حاصل ہوگی ۔ جو بھی صورتحال ہے او جس نیت اور ارادے سے بھی یہ پہل کاری ہورہی ہے بات چیت میں کوئی قباحت نہیں ۔  

قبائلی پارلیمانی جرگہ آیا بااختیار  ہے یا نہیں ؟ پی ٹی ایم کے بنیادی مطالبات کا تعلق فوجی یا سویلین قیادت سے ہے؟ اور آیا ان مسائل کا حل سویلین حکومت کے بس میں ہے بھی یا نہیں ؟آیا بات چیت کے گزشتہ ادوار کی ناکامی یا دوسرے فریق کی وعدہ خلافیوں کے بعد مذید بات چیت فائدہ مند ہوگی یا نہیں ؟ یہ سوالات اھم ہے لیکن اگر ایک فریق بہت سی  وجوھات کی وجہ سے خود مذاکرات کی بجائے اپنے نمائندوں کے ذریعے مذاکرات شروع کرنے کا خواھاں ہے تو نمائیندوں کے ساتھ بیٹھنے میں قباعت نہیں ۔ اور مذاکرات کی ناکامی کا بوجھ پی ٹی ایم اپنے کاندہوں پر کیوں لیں ۔ بلکہ مذاکرات کا ڈہونگ رچانے اور ناکام بنانے والوں کو  بے نقاب کیا جائے ۔ 

بڑھتے ہوئے ریاستی جبر  ، شدید اختلافات اور صف بندی کے ماحول میں مذاکرات کا فیصلہ آسان کام نہیں ہوتا اور تحریکوں میں اس حوالے سے اختلاف رائے کا پیدا ہونا ایک فطری بات ہے ۔ بہت سی وجوھات مثلا مسلسل ریاستی وعدہ خلافیوں کے پیش نظر بہت سے کارکن  مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے اور اسے ایک اور دہوکہ سمجھتے ہیں ۔ اس طرح کچھ انتہاپسند حلقے بھی مذاکرات کو ایک فضول عمل سمجھتے ہیں۔ مگر مطالبات منوانے کیلئے مذاکرات کے بغیر کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں ۔ 

حقیقت  یہ ہے کہ پرامن جہدوجہد کرنے والی تحریکوں کے پاس اپنے مطالبات اور موقف منوانے کیلئے مکالمہ یا مذاکرات ہی ایک اھم ذریعہ ہوتی ہے ۔ جبکہ ریلیاں ، جلسے ، کانفرنسیں اور سیمنارز وغیرہ اپنے مسائل کو اجاگر کرنے ، رائے عامہ بیدار کرنے اور عوام کو متحرک کرکے عوامی دباو بڑھانے کے مختلف طریقے ہیں ۔ عوامی تحریکیں جہدوجہد کے ہر مرحلے پر مطالبات کے حصول کیلئے ریاست یا اس کے نمائندوں سے مکالمہ یا بات چیت کرتی ہیں ۔ اسلئے پی ٹی ایم نے اپنی مختصر تاریخ میں کئی دفعہ بات چیت کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ 

عوامی جہدوجہد میں انگجمینٹ کی پالیسی ھمیشہ فائدہ مند ہوتی ہے ۔ انگجمنٹ کی پالیسی تب کامیاب ہوتی ہے جب مذاکرات کار اپنے مطالبات پر ثابت قدم رہتے ہیں اور  کاز کو مقدم رکھا جاتا ہے ۔ مگر انگجیمنٹ اس وقت تک کوآپشن میں تبدیل ہوجاتی ہے جب بات چیت کیلئے تیاری نہ ہو اور بغیر ٹھوس ضمانتوں کے وعدوں پر اعتبار  کیا جاتا ہے ۔ اور  قومی مفاد کو پش پشت ڈالا جاتا ہے اور ذاتی مفادت کو اولیت دی جاتی ہے ۔  

مذاکرات کے عمل میں ھر فریق اپنے ایجنڈے اور حکمت عملی کے ساتھ جاتا ہے ۔ دوسرے فریق کی جو بھی حکمت عملی ہو یا اس عمل سے وہ جو بھی مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہو وہ پوری کوشش کرئیگا کہ وہ مقاصد حاصل کرے ۔ لیکن پی ٹی ایم کو اپنے اھداف اور حکمت عملی کے ساتھ جانا چائیے۔  مذاکرات کا عمل ایک اعصابی جنگ ہوتی ہے اس میں عمل میں ھمیشہ “کچھ لو اور کچھ دو “ کا اصول کارفرما ہوتا ہے ۔ جو فریق مذاکرات کی میز پر ثابت قدمی ، حکمت اور مضبوط عصاب کا مظاھرہ کرتا ہے وہ بہت کچھ حاصل کرتا ہے ۔ 

 تمام صورتحال عوام کے سامنے ہے ۔ عوام میں اچھے برے کی تمیز ہے ۔  اور وہ اچھی قضاوت کرتے ہیں ۔ کوئی بھی بدنیتی سے اٹھایا گیا قدم جلد بے نقاب ہوجاتا ہے۔ اور سچائی کو نہ تو دبایا جاسکتا ہے اور نہ چھپایا ۔ مگر پھر بھی مذاکرات میں  تاریخی ریکارڈ کو درست رکھنے اور ابہام اور کنفیوژن کو دور کرنے کیلئے موقف اور بنیادی باتوں کو تحریری شکل میں پیش کرنا چائیے ۔ پی ٹی ایم کو نہ تو کسی کے ساتھ بیٹھنے میں عار محسوس کرنا چائیے اور نہ مخالفین کو کسی صورت واک اور دینا چاہئے ۔

جہاں پر فریقین کے مابین بدگمانیاں اور غلط فہمیاں ہو اور وعدوں سے روگردانی کی روایت عام ہو وہاں مذاکرات کی نیک نیتی اور خلوص کے حوالے سے سوالات کا اٹھنا ایک فطری بات ہے۔ بعض ادارے انتقام جوئی میں اندھے ہوکر تمام انسانی ، قانونی اور آئینی حقوق کو بوٹ تلے روند ر ہے ہیں ۔ نقیب اللہ محسود اور طاھر داوڑ کے قتل کی تحقیقات اور کیس میں سردمہری اور راو انور جیسے بدنام زمانہ پولیس آفسر کو تحفظ دینا ، پی ٹی ایم کے راھنماوں کی گرفتاریاں اور ان کے خلاف بےبنیاد مقدمات کا قیام ، پروفیس ارمان لونی کی ایف آئی آر کو درج کرنے سے انکار پشتون عوام میں غم وغصہ کو مزید بڑھا رہے ہیں ۔ 

ریاستی ادارے اس حقیقت کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں کہ ریاستی جبر مسائل کو کم کرنے کی بجائے معاملات کو مزید گھمبیر بنا رہی ہے ۔ اندرون ملک اور بیرون ملک پاکستان کا امیج متاثر ہورہا ہے ۔ اور ننگی ریاستی جبر کی وجہ سے انتہائی کم عرصے میں پی ٹی ایم کی جانب سے اٹھائے جانے والے مسائل اور مطالبات کی گونج  مغربی دنیا کے اھم طاقت کے مراکز میں سنائی جانے لگی ہے اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق اداروں میں پشتونوں کے کیس پیش ہو رہے ہیں ۔ بیرون ملک مقیم پشتون تعلیم یافتہ نوجوان پشتون کاز کو اجاگر کررہے ہیں اور اگرہر ماہ نہیں تو ہر دو تین ماہ بعد یورپ اور نارتھ امریکہ کے اہم شہروں میں پشتون تارکین وطن کے احتجاجی مظاھرے ہورہے ہیں۔ یہ تحریک اب دبنے والی نہیں بلکہ روز بروز پھیلتی جارہی ہے۔ 

پی ٹی ایم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے پیش نظر اعلی فوجی حکام نے گزشتہ چند ماہ میں مختلف شعبہ جات زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات سے کئی رسمی اور غیر رسمی مشاورتیں کی ہیں ۔  اس ضمن میں کور کمانڈر پشاور بھی کافی متحرک ہیں ۔ حالیہ دنوں کور کمانڈر پشاور نے خیبر پختونخوا اور سابقہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے ساتھ کئی نشستیں کی ہیں۔  تقریبا تمام اطراف سے پی ٹی ایم کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز اور بات چیت پر زور دیا جارہا ہے ۔ اگرچہ کریک ڈاؤن کے کئی پلان تیار ہوچکے ہیں ۔ اور پی ٹی ایم کے بازو مروڑنے کی اکا دُکا کوششیں بھی جاری ہے ۔  مگر ایک تو پشتون بیلٹ میں ریاستی بیانیے کو مناسب پذیرائی نہیں مل رہی اور دوسرا طاقت کے استعمال سے معاملات قابو سے باھر ہورہے ہیں۔  

عوامی جہدوجہد میں مذاکرات کیلئے ریاست کی آمادگی عوامی طاقت اور کامیاب جہدوجہد کی غمازی کرتی ہے ۔ سمجھدار تحریکیں ایسے مواقعوں سے فائدہ اٹھاتی ہیں اور اس فرصت کو اپنے مقصد اور پروگرام کو آگے بڑھانے کیلئے استعمال کرتی ہیں ۔ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا مطلب مطالبات سے دستبرداری یا روگردانی نہیں ہوتی بلکہ فریقین کو ایک دوسرے کے سامنے اپنے موقف کو بہتر انداز میں پیش کرنے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے ۔ مظلوم عوام کو اپنے مسائل اور مطالبات کو اجاگر کرنے کا ایک اور موقع ملتا ہے۔ 

پشتون قوم کی بہترین مفاد میں پشتون تحفظ موومنٹ کی قیادت جو بھی فیصلہ کر ے وہ ہمیں منظور ہوگا ۔ اگر پی ٹی ایم مذاکرات میں جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو پھرمذاکرات کے عمل میں پوری تیاری سے جانا چاہئے اور مذاکرات کو باھمی مشاورت سے اور شفاف انداز اور عوام کو ھر مرحلے پر اعتماد میں لیکر آگے بڑھانا چاہیے ۔  تمام فیصلوں کو تحریری شکل میں لانا چائیے ۔ اور فیصلوں پر عملدرامد اور مطالبات کے حل  کا طریقہ کار اور ٹائم لائن طے ہونا چائیے ۔

ابتدائی بات چیت کے بعد اگلے دور کو پی ٹی ایم کے تمام گرفتار کارکنوں کی رہائی ، جعلی مقدمات کے خاتمے ، اندرون اور بیرون ملک نقل وحرکت پر پابندیوں کا خاتمے ، پروفیسر ارمان لونی کی قتل کی ایف آئی آر کے اندراج اور ڈس انفارمیشن کمپئن بند اور پی ٹی ایم کی سرگرمیوں پر میڈیا سنسرشپ ہٹانے سے مشروط کیا جائے ۔ مطلب مذاکرات کے اگلے دور سے پہلے حکومت کو خیرسگالی کا مظاہرہ کرنا چائیے۔ اور اس طریقے سے جرگہ کی بے اختیاری یا بااختیاری بھی ثابت ہوجائیگی۔  مذاکرات سے انکار یا بائیکاٹ کی صورت میں اپنے موقف کو عوام کے سامنے ٹھوس اور مدلل انداز میں رکھنا چائیے ۔

 

Comments are closed.