ایک بار پھر پاک بھارت کشیدگی پر گالیاں ہندوؤں کو دینے کا سلسلہ شروع ہے۔۔۔۔اور یہ کوئی نئی بات بھی نہیں۔۔۔۔ایک عمر گذری ہے۔۔ اس رویے کے ساتھ۔۔۔۔ بچپن گاؤں میں گذرا ، مولانا یوسف لدھیانوی کے نام سے قائم مدرسے میں مسلم کلاس فیلوز کے ہمراہ ٹیوشن پڑھی۔ ایام عاشور میں محلے کی امام بارگاہ میں ماتم داری کی جاتی جب نذر و نیاز یا سبیل سے شربت یا پانی پینے کی باری آتی تو پوچھا جاتا برتن کہاں ہے۔۔۔اور یہ رویہ ہر جگہ سہا۔۔
پرائمری سے اسکول اور کالج تک جو نصاب پڑھایا گیا۔۔اورجو پڑھایا جاتا ہے۔۔ اس میں سب سے پہلے دو قومی نظریہ اور اس میں کہا جاتا ہے کہ قیام پاکستان ہندوؤں کی زیادتیوں کی وجہ سے قائم ہوا۔۔اور تاریخ پاکستان کے لب و لباب میں ہندو سے نفرت کا درس دیا جاتا ہے۔۔اور پھر کئی بار وہ نفرت بھرے جملے و القاب بھی سننے کو ملے۔۔۔اور اب بھی مل جاتے ہیں۔۔لیکن اب عادت سی ہوگئی۔ کیا برصغیر میں صرف دو قومیں ہندو اور مسلمان رہتی تھیں۔۔ یہاں تو بدھ، سکھ، جین، پارسی اور عیسائی بھی رہتھے تھے اور ہیں۔ تو پھر دو قومی نظریہ کیسے۔۔۔؟؟؟
یہ اور بات ہے کہ قوم اور مذہب میں بڑا فرق ہے۔۔۔ ہاں تو ہم گاؤں سے شہر آگئے، اور جو ہم نے سہا وہ اب ہمارے بچے بھی محسوس کرتے ہیں۔۔اپنے کلاس فیلوز اور اسکول کے بچوں کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ بتوں کی پوجا کرتے ہو،آپ کا بندر جیسا بھگوان ہے۔۔۔‘‘ ہمارا جواب ہوتا بیٹا چپ رہا کرو ۔۔۔ جواب نہیں دیا کرو‘‘ ایک دن اسکول پرنسپال نے بلایا اور بچوں کی شکایت کی۔۔ کہنے لگے ’’ آپ کے بچوں نے دیگر بچوں کو غلط سلط بول دیا ہے۔ ۔ ۔‘‘ جواب دیا کہ ابتدا دوسرے بچوں نے کی تھی جس کے ردعمل میں ہمارے بچے بولے ۔۔‘‘ پرنسپل کہنے لگی ’’ آپ کو یہ سب سننا اور سہنا پڑیگا۔۔۔
تاویلیں دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں ہمارے مسلمان بھی تو سہہ رہے ہیں نا۔۔۔‘‘ ہم نے کہا ’’ آپ پرنسپل ہیں ، بچوں کی اخلاقیات کو ٹھیک کرنا ٹیچر کی ذمہ داری ہے۔۔اگر آپ خود یہ سوچتی ہیں تو پھر بچے بھی بڑے ہوکر یہ کہیں گے اوراسی پر عمل کرینگے۔۔’’ جب اسکول میں ٹیچر تھا تو بائیالوجی کے پیریڈ میں ڈارون تھیوری پڑھائی تھی۔۔۔ کلاس کے بچوں نے اپنے والدین کو جا کر کہا کہ سر کفر پڑھا رہے ہیں۔۔۔۔
چند بچوں کے والدین نے ہیڈ ماسٹر سے آکر شکایت کردی۔۔ہیڈ ماسٹر کے پوچھنے پر ان کے گوشِ گذار کیا کہ کتاب حکومت سندھ کے ادارے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ نے چھاپی ہے اور اسی کتاب میں ڈارون کا جانداروں کی ارتقا کا نظریہ دیا گیا ہے۔۔ میں نے کلاس میں اسی نظریے کے بارے میں بات کی تھی۔ ہیڈ ماسٹر نے میری بات سننے کے بعد کہا ’’ آپ لیکچر نا دیں، کتاب میں نشان لگا کر بچوں کو فیئر کردینے کا کہہ دیا کریں‘‘ ۔
کچھ سال پہلے اہلخانہ کے ساتھ لاہور جانا ہوا۔۔ وہاں ایک دوست نے بیگم کوٹ کے علاقے میں اپنی رشتہ دار کے ہاں ہماری رہائش کا بندوبست کیا۔۔ وہاں محلے دار خواتین اور لڑکیاں ہم کو دیکھنے آئیں۔۔ بولیں کہ ’’ ہم نے کبھی ہندو نہیں دیکھے۔‘‘۔
بغور دیکھنےکے بعد کہنے لگیں’’ آپ تو ہمارے جیسے ہی ہو ‘‘۔ نصابی کتابوں کے مطابق پاکستان، ہندوؤں کی ظلم اور تسلط سے بچنے کے لئے قائم ہوا اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آج تک ہندو کی ملامت کی جاتی ہے۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہاں انگریزوں کی حکومت تھی اور انگریزوں سے قبل اکثر علاقوں پر مسلمان جبکہ پنجاب اور کشمیر پر سکھ حکمران تھے۔۔البتہ چند ایک ریاستوں پر اونچے درجے کے ہندو راجاؤں کی حکومت تھی۔۔ وہ بھی انگریزوں کے ماتحت تھے۔۔۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب مسلمانوں سے انگریزوں نے حکومت لی اور ان کے خلاف آزادی کی تحریک چلی اور پاکستان آزاد ہوا، تو اس سب کے بیچ میں ہندو سے نفرت کہاں سے آگئی۔۔یہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ ہندستان دشمنی ہے۔ ہٹلر بھی تو اپنی بایوگرافی میں کہہ گیا ہے۔۔۔ دشمن نا بھی ہو توبھی دشمن کا خوف دیکر ڈراؤ۔۔۔۔ کہیں یہاں پر بھی ایسا تو نہیں ہورہا۔
آخر میں آپ کو نیویارک کا واقعہ سناتا ہوں وہاں ایک سڑک کنارے اسٹال لگائے بیٹھے پاکستانی بزرگ نے کہا تھا کہ ’’ آج پاکستان کی تمام برائیوں اور خرابیوں کا ذمہ دار صرف ہندو ہے۔’’ اور خود اپنے پاکستان چھوڑنے کا سبب بتایا کہ ’’ ایم کیو ایم کی وجہ سے بیس برس پہلے کراچی چھوڑ کر امریکہ میں آکر آباد ہوا ہے’’۔۔