علی احمد جان
آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن سالانہ آکر گزر بھی جاتا اور پتہ بھی نہیں چلتا تھا مگر اس بار ایسا طوفان برپا کر گیا ہے کہ لگتا ہے ہر شے تہہ و بالا ہوکر رہ گئی ہے۔ ہر طرف ایک شور برپا ہے کہ خواتین نے ایسے بینر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ کچھ تو قرب قیامت کی نشانی سمجھ کر اپنی عاقبت کی فکر میں پڑ گئے اور کچھ نے دوسروں کو راہ راست پر لانے کی ٹھانی ہے۔
قبائلی اور جاگیر دارانہ سماج میں عورت کی حیثیت زرخرید غلاموں جیسی یا اس سے تھوڑی بہتر ہوتی تھی جہاں نہ صرف بازار میں کنیزیں اور غلام بیچے اور خریدے جاتے تھے بلکہ عام عورتیں بھی رشتے ناطے کے نام پر استحصال کا شکار ہوتی رہتی تھیں۔ صنعتی دور کے آغاز کے ساتھ دنیا میں جو بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان میں ایک تو جمہوریت ہے اور دوسری تبدیلی انسانوں کے برابری کو بطور بنیادی حق تسلیم کرنا ہے۔
غلاموں، مزدوروں کی طرح عورتوں کی برابری کے سماجی حقوق کی جدوجہد کا آغاز بھی ریاست ہائے متحدہ امریکا سے ہی ہوا اور دنیا بھر میں ایک پیغام بن کر پہنچ گیا۔ ہم چونکہ ابھی تک قبائلی اور جاگیردرانہ سماج سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں تو یہ پیغام بھی ہم تک اپنی اصلی معنویت کے ساتھ نہیں پہنچ سکا تھا جو اب ذرائع ابلاغ کی ترقی کے طفیل ممکن ہو پایا ہے۔اب وقت کے ساتھ بنیادی حقوق کے بارے میں آگاہی اور شعور میں اضافہ ہوتا جارہا ہے، جو جاری رہے گا۔
پچھلے سال آٹھ مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقعے پر اسلام آباد میں صرف ایک خاتون ایک پلے کارڈ کے ساتھ نظر آئی تھی جس پر لکھا ہوا تھا ’میرا جسم میری مرضی‘۔اس بات کو لے کر سال بھر جو چرچا ہوا۔اس کے نتیجے میں اس سال سینکڑوں خواتین ملک بھر ایسے درجنوں نعروں کے ساتھ سامنے آئی ہیں۔جس انداز میں اس سال ان نعروں، جملوں اور باتوں پر رد عمل سامنے آیا ہے اس سے اگلے سال اس تعداد کا بھی کئی گنا ہونے کا قوی امکان موجود ہے۔
ویسے تو ہمارے ہاں دوسروں کے معاملات میں دخل اندازی کو ہر شخص اپنا بنیادی فرض کر دا کرتا ہے مگر جب بات خواتین کی آئے تواس کو کار خیر سمجھ کر وہ بھی کود پڑتے ہیں جو عموماً سماجی معاملات سے دور رہنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔ شاید ان لوگوں کو کبھی جی ٹی روڈ پر ہوٹلوں اور مسافر خانوں میں بنائے بیت الخلا جانے کا اتفاق نہیں ہوا یا وہ وہاں جاکر آنکھیں بند کرلیتے ہیں ورنہ ان کو معلوم ہوجاتا کہ ہم ایک دوسرے کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں خاص طور اپنے مذہبی اورسیاسی مخالفین کے زنانی رشتوں کے لیے کیا جذبات رکھتے ہیں اور ان کا اظہار کن الفاظ میں کرتے ہیں۔
آٹھ مارچ کے کسی بھی اجتماع میں خواتین نے جو پلے کارڈ اور بینر اٹھا رکھے تھے ان میں کسی عقیدے یا مذہب کے خلاف یا کسی مذہبی شخصیت کے خلاف کوئی بات نہیں لکھی ہوئی تھی۔البتہ کچھ مذہبی رجحان رکھنے والے مقررین نے اپنے نقطہ نظر سے خواتین کو مذہب کے دائرے میں دیے ہوئے حقوق کے بارے میں بات کی جو انتہائی خندہ پیشانی کے ساتھ سنی اور سراہی گئی۔مگر اس مارچ کو مذہب کے خلاف قرار دے کر اس کی مخالفت سب سے زیادہ ہو رہی ہے۔
اس مارچ کے جتنے نعرے سوشل میڈیا پر گردش کر رہے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمومی سماجی رویوں کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ اگر قانون اور آئین کی نظر میں تمام شہری مساوی ہیں تو ایک شخص کو یہ حق کس نے دیا کہ وہ کسی دوسرے شہری کے اٹھنے، بیٹھنے اور پہننے پر اعتراض کرے اور سدھارنے کی اپنی سی کوشش کرے؟ اگر اس حق کو باور کروانے کی کوشش کی جائے تو اس میں برا کیا ہے؟ یہ کس مذہب نے کہا ہے کہ صرف عورتیں ہی کھانا پکائیں، جرابیں اور موزے ڈھونڈ کر دیں، کپڑے استری کریں اور روٹیاں بنالیں؟ اگر کوئی اس بات کا شاکی ہے تو کیا اس کی شکایت جائز نہیں؟
مذہبی رجحان رکھنے والوں کی طرف سے ان باتوں کی مخالفت کی سمجھ اس لیے نہیں آرہی ہے کہ وہ ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ دین میں کوئی جبر نہیں اور دوسری طرف مذہب کے نام پر لوگوں کا اپنی مرضی سے جینے کی مخالفت کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں اب مذہب ایک ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے جس کا ریاست، ادارے یا کسی دوسرے شخص سے کوئی سروکار نہیں۔ مذہب کی پیروی بھی ایک عمومی روش کی طرح ہر شخص میں مختلف ہوتی ہے اور اس سے وابستہ تصورات اور خیالات بھی یکساں نہیں ہوتے۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ریاست کے اندر بسنے والے سارے لوگ ایک جیسے تصورات اور خیالات رکھتے ہوں۔ یہ تجربہ جن ممالک میں کیا گیا وہاں بھی اب اس کی پسپائی دیکھی جاسکتی ہے۔ سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک میں اس نظام کے خلاف بغاوت کا انفرادی اور اجتماعی اظہار اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ لوگوں کو جبر کے ساتھ تادیر قابو میں نہیں رکھا جاسکتا ہے۔
خواتین کے آٹھ مارچ کے مارچ نے دور افتادہ علاقوں، قبائلی اور جاگیردرانہ معاشرتی پس منظر کے حامل افراد کو بھی حیرت زدہ کردیا۔ سوشل میڈیا پر ایسے افراد نے اس مارچ میں شریک خواتین کے اٹھائے پلے کارڈ پر لکھے نعروں پر تو حیرت کا اظہار تو کیا ہی مگر ایک بڑی عمر کے شخص کے نکاح کی مخالفت میں دیے بیان پر یقین ہی نہیں کیا۔
اس حیرت کی وجہ ایسے افراد میں اپنے پس منظر کی روایات کے علاوہ معلومات اور علم کی کمی کے ساتھ مارچ کے شرکا کا بانکپن اور جرات بھی ہے جو ہمارے ہاں روایتی جاگیردرانہ اور قبائلی سماج میں مفقود ہے۔ متحیر افراد کو شاید یاد نہیں رہا کہ ہمارے بڑے بڑے زعما اور مشاہیر غیر منکوحہ عورتوں کی پیدائش یا ان کے ہاں ہونے والی اولادیں بھی بغیر نکاح کی پیدا وار تھیں۔ شادی کے ذاتی اور انفرادی معاملے میں نکاح کے نام پر ریاستی مداخلت کا موجودہ نظام بھی جدید ریاست کے تصور کے ساتھ وارد ہوا ہے جو اب جہاں سے شروع ہوا تھا وہی پر ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
اس مارچ نے بڑے شہروں کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے بادی النظر میں ترقی پسند اور لبرل نظر آنے والے لوگوں میں بھی ایک منفی رد عمل پیدا کیا جس کے قابل فہم ہونے کی اپنی وجوہات ہیں۔ ان حلقوں میں اس مارچ کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ ہمارے بڑے شہروں کی سیاست میں ہمیشہ سے دائیں بازو کے مذہبی رجحانات حاوی رہے ہیں۔ کراچی، لاہور اور فیصل آباد جیسے شہروں میں بسنے والی متوسط طبقے کی کثیر آبادی میں دیہی علاقوں یا چھوٹے شہروں کی نسبت مذہبی نعرے زیادہ مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں کی اشرافیہ کا بھی جدیدیت کے خلاف ہونا امر مجبوری بن جاتا ہے جو ایک منافقانہ ہونے کے ساتھ مصنوعی بھی ہے۔
اسی مصنوعی رویے کی وجہ سے ان بڑے شہروں میں بسنے والی اشرافیہ اور متوسط طبقے کی طرف سے ہمیشہ ایسے جرات مندانہ اقدامات کی مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ ماضی قریب میں بھی سوات کی ملالہ یوسفزئی کی جرات کو بھی ان بڑے شہروں میں ایسی پزیرائی نہیں مل سکی تھی تو آج کرک کی عصمت شاہجہاں اور کوئٹہ کی جلیلہ حیدر کی حمایت نہ کرنا بعید از قیاس نہیں ہے۔
آٹھ مارچ کے خواتین مارچ کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس میں اٹھائے بینر اور پلے کارڈ پر لکھے جملے اور نعرے اگلے سال تک گردش کرتے رہیں گے اور ان پر بحث ہوتی رہے گی۔ ما ضی کے تجربے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگلے سال پھر آٹھ مارچ کو اس سے بھی زیادہ تعداد میں خواتین اور مرد باہر نکلیں گے اور سماجی جبر کے خلاف اپنے رد عمل کا اظہار کریں گے۔ان عورتوں کی باتیں کسی کے دل کو لگتی ہو ں یا آگ لگاتی ہوں پر یہ کارواں اب رکنے والا نہیں۔
♦