ایک دوست نے جیو ٹی وی کے پروگرام خبرناک کا ایک کلپ بھیجا جو بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو بھارت بھیجنے سے متعلق تھا۔مزاح کے نام پر اس تضحیک آمیز کلپ کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سکرپٹ رائٹر اور پروڈیوسر کے اندر فیاض الحسن چوہان ہی بول رہا ہے۔اور اس کلپ کو دو ملین سے زائد افراد نے دیکھا ہے۔
یاد رہے کہ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کو ہندو مذہب کے خلاف ریمارکس دینے پر فارغ کر دیا گیا تھا جس پر سوشل میڈیا میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ فیاض الحسن چوہان نے جو ریمارکس دیئے ہیں یہ تو پورا ایک مائنڈسیٹ ہے جسے جہادی کالم نگاروں اور لکھاریوں نے سماج کا ۹۹ فیصد تو نہیں ۹۵ فیصد بیانیہ ضرور بنادیا ہے۔ یہ مطالعہ پاکستان کا بیانیہ ہے جب تک اس بیانیہ کو ختم نہیں کیا جائے گاہرجگہ فیاض الحسن چوہان ہی ملیں گے۔
پاکستانی ریاست نے اپنے قیام کے ساتھ ہی بھارت سے نفرت کی پالیسی اپنائی کیونکہ اگر جمہوریت ، سیکولرازم اور دوستی ہی کرنا ہوتی تو پھر پاکستان کے قیام کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا تھا۔ لہذا نفرت کی پالیسی کے لیے ضروری تھا کہ ایک دشمن بنایا جائے۔اور دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے مذہب ایک بہترین ہتھیار ہے اور ہم اپنے آپ کو اعلیٰ ترین مقام پر فائز کرکے دوسرے مذاہب اور غیر مسلم قوموں کو کمتر ثابت کرتے ہیں،ان کی یک کرتے ہیں ، ا نہیں انتہائی گھٹیا اور مکار ثابت کرتے ہیں۔پھر ا پنے پالے ہوئے دہشت گردوں کے ذریعے ان پر حملے کرتے ہیں اور سب سے بڑے امن پسندبنتے ہیں۔
یہ وہی ذہنیت ہے جس میں ہمارے فلموں اور ڈراموں میں ہندو کو انتہائی گھٹیا ، چالاک اور مکار قوم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ بغل میں چھری اور منہ میں رام رام جیسے نفرت آمیز بیانیہ کاپرچار ہماری فلموں اور ٹی وی ڈراموں میں نظر آتا ہے۔ نسلی برتری کے اس احساس تفاخر نے ہمیں اخلاقی دیوالیہ پن کا شکا رکر رکھا ہے ۔ سماج کی اسلامائزیشن نے تخلیقی سوچ کو ختم کرکے رکھ دیا ہے۔جس معاشرے سے تخلیقی سوچ ختم ہوجائے تو پھر اس میں سستی گفتگو، لچر پن اور بے ہودہ رقص اور فیاض الحسن چوہان جیسی گفتگو ہی ممکن ہے۔
نجی ٹی وی چینلز پر پر مزاحیہ پروگرام کا ٹرینڈ سیٹ کرنے والے آفتاب اقبال ہیں جو بنیادی طور پر سیاستدانوں کو انتہا ئی گھٹیا اور بین السطور میں ملک دشمن کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ انہوں نے سٹیج ڈراموں میں لگائی گئی سستی جگتوں کو ٹی وی جیسے بڑے میڈیم پر ٹرانسفر کردیا۔آفتا ب اقبال یا ان کے شاگردوں کی گفتگو سن کر ایسا ہی محسو س ہوتاہے کہ وہ فیاض الحسن چوہان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔
پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ گھٹیا سلوک وا رکھا جاتا ہے، ہندووں کی لڑکیوں کو اغوا کرکے زبردستی مسلمان کیا جاتا ہے، مسیحیوں اور احمدیوں کے گھروں کو جلا دیا جاتا ہے ، ریاستی ادارے دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے ہیں، اپنے ہی شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کرتے ہیں لیکن یہ موضوع ہماری فلموں، ڈراموں یا طنزومزاح کا حصہ نہیں بن سکتے۔
بھارت کوئی آئیڈیل ملک نہیں ہے۔ وہاں بھی انتہا پسندی تنظیمیں ہیں ، شہریوں پر ظلم و زیادتیاں ہوتی ہیں مگر ہمارا عمومی رویہ یہ ہے کہ ہم بھارت میں ہونے والی ہر خرابی کو اچھالیں گے مگر اپنے گریبان میں نہیں جھانکیں گے۔ بھارتی شہری اپنے ہاں جاری انتہا پسندی کے خلاف لڑائی لڑ رہے ہیں ۔دوسروں کو تضحیک کا نشانہ بنانے کی بجائے پہلے اپنی خرابیوں کی تو بات کر لیں ۔