رام پنیانی
ایسی رپورٹس منظرعام پر آئیں کہ انڈین ایئر فورس کے مگ طیاروں نے پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر حملہ کیا اور بم گراتے ہوئے دہشت گردی کے اڈوں کو تباہ اور متعدد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا (26 فبروری 2019ء)۔ یہ پلوامہ میں خطرناک دہشت گردانہ حملے کا نتیجہ ہوا، جس میں 44 سی آر پی ایف جوان ہلاک ہوئے جب بارود سے بھری ممکن ہے آر ڈی ایکس لے کر ایک کار اُن ٹرکوں کے قافلے میں گھس گئی جن میں 2400 سی آر پی ایف جوان سفر کررہے تھے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے دہشت گردی کی اس بزدلانہ حرکت کے بعد بیان دیا کہ آرمی کو مناسب کارروائی کرنے کیلئے اجازت دے دی گئی ہے۔ صدر بی جے پی امیت شاہ اور بی جے پی کے کئی قائدین نے دعویٰ کیا کہ یہ چونکہ مودی حکومت ہے کانگریسی نہیں، اس لئے مناسب کارروائی کی جائے گی۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اب چونکہ مودی برسراقتدار ہیں، اس لئے قومی سلامتی کا خوب خیال رکھا جارہا ہے، جو سابقہ کمزور کانگریس حکومتوں کے برعکس ہے۔
حقائق کیا ہیں؟ دہشت گرد حملہ بجائے خود ہماری سرحدوں کی حفاظت میں مودی کے مؤثر ہونے سے متعلق کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ سب سے پہلے یہ کہ کس طرح کوئی کار اتنی بھاری مقدار میں بارودکے ساتھ ہائی سکیورٹی والی سرینگر۔ جموں شاہراہ میں گھس سکتی ہے؟
سکیورٹی کی اس بدترین کوتاہی کیلئے کون ذمہ دار ہے؟ 2008ء میں 26/11 کی بات ہے جب ممبئی پر دس اچھی طرح مسلح دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا جو رات کے اندھیرے میں ممبئی کے ساحل تک پہنچے تھے، تب مرکزی وزیر داخلہ شیوراج پاٹل اور مہاراشٹرا کے وزیر داخلہ آر آر پاٹل دونوں کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔ غلطیوں کی اصلاح کرنے کی شروعات خامیوں کو ختم کرنے سے ہوتی ہے۔ اِس مرتبہ سکیورٹی کی زبردست کوتاہی کیلئے کسی کو بھی ذمہ دار قرار نہیں دیا جارہا ہے۔ سکیورٹی کی حالت مزید آشکار ہوئی جب ہمیں پتہ چلا کہ مسٹر مودی کافی دیر تک اس حملے سے ناواقف رہے کیونکہ وہ جم کاربٹ ریزارٹ میں ایک ویڈیو فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے۔
اس دہشت گردانہ حملے کے بعد سب سے زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ کشمیری اسٹوڈنٹس اور تاجرین کو مختلف مقامات جیسے دہرہ دون، لدھیانہ، اور اورنگ آباد میں نشانہ بنایا گیا۔ زیادہ تر حملہ آور دائیں بازو کے ہندو گروپوں سے وابستہ ہیں۔ کئی جگہ سکھ گروپوں نے انھیں بچایا لیکن سپریم کورٹ نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا کہ کشمیریوں کی حفاظت کرنا چاہئے۔ کئی دنوں بعد مسٹر مودی نے بیان کیا کہ کشمیریوں پر حملہ نہیں کرنا چاہئے، لیکن تب تک کافی نقصان پہلے ہی ہوچکا تھا۔ جیسا کہ پہلے اُونا میں دلتوں پر حملوں اور گائے سے متعلق ہجومی تشدد میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے معاملوں میں دیکھا گیا تھا۔
مودی نے ان کی مخالفت میں اپنا منہ یا تو رسمی طور پر کھولا یا پھر اتنی تاخیر سے کہ نقصان ہونے دیا جائے۔ ہمارے بعض ٹی وی اسٹوڈیوز، نیوز چینلوں نے جو پہلے ہی انتہاء درجہ کی قوم پرستی اور نفرت کو پھیلاتے آئے ہیں، اقلیتوں سے نفرت اور مخالف کشمیری لفاظی کی اپنی مہم میں شدت پیدا کردی۔ جس طرح کشمیری اسٹوڈنٹس اور کشمیری تاجرین کو نشانہ بنایا گیا، وہ بنیادی طور پر میڈیا کے بعض گوشوں، نیوز چینلوں اور نام نہاد چوکس گروپوں کے پیدا شدہ ماحول کے سبب ہوا۔
گورنر میگھالیہ تتھگت رائے کا بیان کہ کشمیریوں کا بائیکاٹ کیا جائے، ہمارے دستور کے جذبہ کے یکسر منافی ہے اور اُن پر ضرور دباؤ ڈالنا چاہئے کہ وہ اپنی اپیل واپس لیں۔ اس واقعہ کا نہایت حیران کن حصہ کراچی بیکری کی بنگلور فرنچائز پر حملہ ہے۔ اتفاق سے اس بزنس چین کی بنیاد کھناچند رام نانی نے رکھی تھی، جو تقسیم ہند کے وقت نقل مقام کرکے ہندوستان میں حیدرآباد کو منتقل ہوگئے تھے۔ جہاں موجودہ حکومت لفاظی میں طاقتور ہے اور جرأت مندی کا مظاہرہ نہیں، وہیں دہشت گردی اور سکیورٹی کے معاملوں سے نمٹنے میں اس کا ریکارڈ مایوس کن ہے۔
سرکاری ذرائع سے دستیاب ڈیٹا ہمیں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ این ڈی اے حکومت کے دوران دہشت گردی سے متعلق حملوں کے کتنے واقعات پیش آئے، عسکریت پسندی میں کتنے افراد شامل ہوئے اور کتنی تعداد میں سکیورٹی پرسونل ہلاک ہوئے؛ یہ سب یو پی اے حکومت کے وقت سے کہیں زیادہ بڑی تعداد میں ہیں۔ حکومتی مواد پر مبنی انڈیا اسپنڈ (غیرنفع بخش ڈیٹا پورٹل) کے تجزیہ کے ڈیٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2017ء تک تین سال کی مدت میں جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے زائد از 800 واقعات پیش آئے، جو 2015ء میں 208 سے بڑھتے ہوئے 2017ء میں 342 تک پہنچ گئے۔
ان تین سال میں مجموعی طور پر 744 افراد ہلاک ہوگئے: 471 دہشت گرد، 201 سکیورٹی فورسیس اور 72 عام شہری۔ اس اضافے کی بڑی وجہ مودی حکومت کی غیرحساس پالیسیاں ہیں جس میں بات چیت کی جگہ پیالٹ گنس نے لے لی ہے۔
پلوامہ حملہ کے جواب میں حکومت نے اس علاقے کو مزید دستے بھیج دیئے، علحدگی پسند قائدین کی سکیورٹی سے دستبرداری اختیار کرلی گئی اور نوجوانوں کو بندوقیں اٹھانے پر سنگین نتائج کا انتباہ دے دیا گیا۔ یہ قابل ذکر ہے کہ عادل احمد ڈار جس نے کار کو سی آر پی ایف قافلے میں گھسایا، وہ بھی سسٹم سے نفرت کے نتیجے میں دہشت گردی کی راہ پر چل پڑا تھا۔ اسے ایک سال قبل ملٹری نے پیٹا تھا، جس کے بعد اُس نے وہ راہ اختیار کی جس نے اسے جیش محمد کی جھولی میں پہنچا دیا۔
یہی امید کی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی مسلح افواج کی حالیہ کارروائی کشیدگی کو مزید بڑھانے کا سبب نہ بنے۔ قومی جذبات بھڑکے ہوئے ہیں، پاکستان کے ساتھ تجارت گھٹا دی گئی کیونکہ پاکستان کو ’نہایت پسندیدہ قوم‘ کے درجہ سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے۔ ساتھ ہی ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ خطہ بار بار تشدد کا متحمل ہوسکتا ہے؟ ہندوستان۔ پاکستان۔ کشمیر نااتفاقی کا موجب بننے والے پوشیدہ عوامل سے مذاکرات کے عمل کے ذریعے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ امید اور دعا یہی ہے کہ یہ محدود حملہ جسے ’سرجیکل اسٹرائک ۲ ‘ بھی کہا جارہا ہے، بس اتنی ہی رہے اور زیادہ نہ ہونے پائے۔ عمران خان نے جارحانہ انداز میں کہا ہے کہ اگر پاکستان کو مناسب ثبوت دیا جائے تو کارروائی کی جائے گی۔ انھوں نے بات چیت کیلئے اپنی آمادگی بھی ظاہر کی ہے۔
دریں اثناء اقوام متحدہ سکریٹری جنرل نے اس خطہ میں امن اور بھائی چارہ لانے کیلئے درکار عمل میں ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ یہ امن کے مواقع ہیں جنھیں حاصل کرتے ہوئے ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کئی دہے قدیم مسئلہ کی یکسوئی ہوجائے۔ ہندوستان بطور ملک کو ترقی، کرپشن، جابس اور زرعی بحران سے متعلق مسائل کو دوبارہ پیش منظر پر لانے کی سخت ضرورت ہے۔ ان مسائل کی یکسوئی پر ہی خطہ میں امن اور خوشحالی آئیں گے، اور زمین پر بارود کی بو‘ دور تک نہیں ہوگی اور ماحول میں اقلیتوں سے نفرت بھی نہ ہوگی۔
روزنامہ سیاست، حیدرآباد انڈیا