منیر سامی
گزشتہ ہفتہ ہم نے خواتین کے عالمی دن اور مارچ پر ایک تحریر پیش کی تھی۔ جس کے بعد سوشل میڈیا اور مرکزی میڈیا پر ایک علیحدہ بحث شروع ہو گئی۔اس بحث کا ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس مارچ پر نہ صرف کڑی بلکہ دل برداشتہ تنقید کرنے میں ہمارے کچھ ایسے دانشور بھی شامل ہوگئے جو بذاتِ خود انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے اہم رہنما جانے جاتے تھے۔ ان کے خواتین کے مارچ پر تبصرے انتہائی دل شکن تھے۔ اس وجہ سے ہم نے عنوان میں جو مصرعہ رکھا وہ اس سے شعر سے ہے اور صورتِ حال اوراور دلسوزی کاترجمان ہے: دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف، اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ پھر غالب کا یہ شعر بھی یاد آیا کہ ، ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیا ہو۔
جن دانشور کی بات پر سب ناراض ہوئے وہ حیران کُن طور پر ہماری محترم شاعرہ کشور ناہید تھیں۔ ان کے بیان پر پاکستان کے مرکزی اخبار ڈان سے لے کر مختلف دانشور حلقوں میں تنقید ہوئی۔ پہلے تو سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر کشور ناہید نے جو اپنی اہم کتاب ’بری عورت کی کتھا ‘ کے اہم حوالے سے جانی جاتی ہیں، ایسا کیا کردیا۔ پھرہم نے شک کافائدہ دیتے ہوئے سُنی سنائی بات پر یقین کرنے کے بجائے وہ ویڈیو دیکھا جس میں ان کا بیان مِن و عن ریکارڈ ہوا تھا۔
اس پروگرام میں جو خواتین ہی کے حوالے سے تھا، کشورؔ ناہید خواتین مارچ کے منتظمین کو سخت سست سناتی نظر آئیں۔ حیرانی کی بات تو یہ بھی تھی کہ وہ اس دوران ان پوسٹروں اور نعروں کی فوٹو کاپیاں ایک کے بعد ایک بعد ایک پھینکتی رہیں اور چند حلقہ بگوش اس پر تالیا ں پیٹتے رہے۔ ان کے بیان کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ خواتین مارچ میں شریک خواتین اور منتظمین نے ’روایات ‘ کا تقدس خراب کیا اور یہ کہ ہماری بچیوں کو یہ نہ کرنا چاہیے تھا اور اس طرح انہوں نے حقوق کی تحریک کو سخت نقصان پہنچایا ۔
ہم نے تو یہ سن کر اور یہ دیکھ کر اپنا سرپیٹ لیا۔ پھر ہمیں فہمیدہ ؔریاض یاد آئیں جو بدن دریدہ کی اشاعت ہی سے قدامت پرستوں کی سنگساری کا شکار تھیں۔ اور پھر ہمیں خود کشور ناہید کی کتاب ’بری عورت کی کتھا ‘ یاد آئی۔ جس کا صرف عنوان ہی روایت شکن تھا۔اور ان کا یہ اقتباس بھی یاد آیا، ’’ ۔۔یہ کہانی ایک فرد کی نہیں ، اس سارے معاشرے کی ہے جہاں بڑی بڑی باتیں بھلا دی جاتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی کمینگیاں یاد رکی جاتی ہیں۔ بقول سینٹ جان پرس،’یہ کہانی گلی کی اس عورت کی ہے جو دکھ میں فاتحہ پڑھتی ہے، راہ چلتوں کو کاٹتی ہے، شہزادے یا خنجر کو اپنے بازوں میں لے کر چلتی ہےـ‘۔۔‘‘
میں اپنے سیاق اور پس منظر کو واضح کرنے کے لیے کشور ناہید کا ایک اور حوالہ پیش کردوں کہ ’’ میں نے کیا کیا تھا، صرف سیموں ڈی بواؔ، کی کتاب سیکنڈ سکس کا ترجمہ کیا تھا! انگریزی ایڈیشن کبھی بند نہیں کیا گیا۔ کہا گیااردو ترجمے کے ذریعہ عورت کے بدن کے بارے میں غیر اخلاقی باتیں سرِ عام کرنے کی مذموم کوشش ہے۔ ‘‘۔۔۔ ’’ میں نے تو پھر بھی کونپل بنتی ہوئی عورت کے جسم کا ماجرا ، نفسیاتی تفاصیل کے ساتھ پیش کیا تھا، چلو اس کو پڑھ کر کلرکوں کو پسینہ آگیا ہو گا‘‘۔
خواتین مارچ پر اپنے بیان میں کشور ناہید نہ صرف بلکہ فہمیدہ ؔریاض، ساراؔ شگفتہ، نسیم ؔ سید، اور ایسی ہی ان جیسی کتنی ہو دلیر عورتوں کی نفی کی ہے، جو آپ ہی کی تحریریں پڑھ کر نہ صرف اپنے حق مانگتی ہیں، بلکہ سب سے بڑھ کر یہ اصل حق مانگتی ہیں کہ ہر عورت اپنے جسم و جان کی خود مالک ہے ، اور اسے کسی بھی روایات شکنی سے نہیں روکا جا سکتا ہے۔ کیا خواتین مارچ میں عورتیں برہنہ ناچ رہی تھیں جو آپ کو روایت کامحافظ علمبردار بننا پڑا۔
مسئلہ یہاں کشور ناہید کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ کشور ناہید اوران کی طرح کے دیگر دلیر اور ترقی پسند رہنما یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زمانہ کس قیامت کی چال چل رہا ہے۔ بدقسمتی سے یہ چال اتنی معکوسی اور تیز رفتار ہے کہ وہ اس طرح کے دانشوروں کو چکا چوند کر رہی ہے۔اس کے ساتھی ہی ہمارے دانشوروں بالخصوص خواتین دانشوروں نے ہماری معصوم اور بالخصوص تعلیم یافتہ خواتین کو حقوقِ نسواں کی تحریک کے اصول واضح طور پر نہیں سمجھائے۔ کتابوں میں یا تحریروں میں مارگریٹ ایٹ وُدڈؔ، مایا انجلوؔ، گلوریا اسٹائنم ؔ، کا صرف حوالہ کام نہیں آتا۔ ان کا کام لوگوں کو تفصیل سے سمجھانا ضروری ہوتا ہے۔
سوشل میڈیا کے دور اور سکڑتی ہوئی کائنات میں اب نوجوان تیزی سے اپنا حق مانگنا سیکھ گئے ہیں۔ انہوں نے حق مانگنا توہین ہے ، حق چھین لیا جائے کا منشور اٹھایا ہے۔ انہوں نے دیکھا ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ان سے پہلوں نے حق مانگتے مانگتے اپنا جیون وار دیا۔ سو اب انہوں نے جدو جہد کو بڑھا کر حق چھینا چاہا ہے۔ اگر ہمارے دانشور یہ نہ سمجھ پائے تو ان کی دانشوری کے دعووں کا حق بھی چھین لیا جائے گا۔
پاکستان میں خواتین مارچ میں ہر طبقہ اور ہر عمر کی خواتین کی موجودگی خوش آئند تھی۔ اب سے کچھ پہلے تک ایسا ہونا ناممکن تھا۔ اگر اب ایسا انقلابی طور پر ایسا ہورہا ہے اور ہماری لڑکیا ں مشکل نعرے اپنا رہی ہیں تو ہمیں اسے قبول کرنا چاہیے اور اب ان کے آگے چلنے کے بجائے ان کی رہنمائی قبول کرنا چاہیئے۔ یہی ہر انقلاب کی روح اور تقاضہ ہے۔
♦