بیگم ناہید سکندرمرزا


طارق احمدمرزا

پاکستان کی پہلی خاتون اول محترمہ بیگم ناہید سکندرمرزا اپنی سوویں سالگرہ سے صرف دوہفتہ قبل مؤرخہ ۲۵جنور ی ۲۰۱۹ء کولندن کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئیں۔

آپ جمہوریہ پاکستان کے پہلے صدرسکندرمرزاکی اہلیہ تھیں۔آپ خراسانی نژادایرانی تھیں ۔آپ کا شجرہ نسب امیرتیمورلنگ سے جا ملتا ہے۔آپ کے والد امیرتیمورقبیلے کے سربراہ تھے اور ایران کے سیاسی،سماجی اورتجارتی منظرنامہ میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔کم ازکم تیرہ مرتبہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے۔ دومرتبہ منسٹررہے۔بیگم ناہیدکی والدہ بھی ایران کے قدیم شاہی خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کے ایک بھائی سفارتکارتھے جو دہلی میں بھی سفیررہے۔

بیگم ناہید ’’ ناہیدامیر تیمور ‘‘ سے بیگم ناہید سکندرمرزاکیسے بنیں،یہ کسی ناول یا فلمی کہانی کی طرح ایک انتہائی دلچسپ داستان ہے۔ایرانی اخبارکیہان (تہران) نے اپنی اشاعت مؤرخہ ۱۴ فروری ۲۰۱۹میں اس کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ناہیدامیرتیمورکی شادی مہدی افخامی نامی ایک ایرانی کرنل سے اس وقت کردی گئی تھی جب وہ ابھی نوعمرتھیں۔ کرنل مہدی کی تقرری اس وقت کے پاکستانی دارالحکومت کراچی میں قائم ایرانی سفارتخانہ میں بطورملٹری اتاشی ہوئی تو ان کی یہ نوعمراہلیہ بھی کراچی آگئیں،گو ان کی خواہش تھی کہ کراچی جانے سے کہیں بہترہے کہ طلا ق لے کرایران ہی میں بسی رہیں۔لیکن والدکے حکم کے سامنے ان کا بس نہ چلا۔

کراچی پہنچنے کے کچھ عرصہ بعدروسی سفارت خانہ کی ایک تقریب میں ان کی ملاقات سکندرمرزا سے ہوئی جو ہجوم کوچیرتے ہوئے عین ان کے سامنے آکھڑے ہوئے اورآؤدیکھانہ تاؤ،بولے ’’تم میری بیوی بنوگی‘‘۔

ذرا تصور میں لائیں،باون سالہ پختہ عمر،پختہ کارفوجی افسر جو شادی شدہ ہی نہیں چھ عدد بچوں کا باپ بھی تھا،ایک ایسی خاتون کو اس قسم کی بات کہہ گیا جو عمر میں اس سے بیس برس سے بھی زیادہ چھوٹی تھی،شادی شدہ تھی اور ایک بچی کی ماں بھی ۔

ان دونوں افرادکی ایک دوسرے سے شادی ؟۔اس کا توکسی کے ذہن میں کہیں دور سے بھی کوئی خیال یاامکان پیدانہیں ہو سکتا تھا۔ خاص کر یہ بات کہ سکندرمرزاپاکستان کے سیکرٹری ڈیفنس تھے اور ان کے سامنے کھڑی یہ خاتون برادرہمسایہ ملک ایران کے ملٹری اتاشی کی اہلیہ تھیں!۔ کوئی پاگل ہی اس قسم کے جوڑکی بات کرسکتاتھا۔

لیکن ان دونوں کا جوڑ بنانے کی کم از کم دووجوہات ایسی تھیں جو ان دونوںکی قدرمشترکہ قراردی جاسکتی تھیں۔اول تو یہ کہ یہ دونوں افراد اپنی اپنی موجودہ ازدواجی زندگی سے غیر مطمئن تھے۔دوسرے یہ کہ ان دونوں کا تعلق حکمران گھرانوں سے تھا۔ناہید امیرتیمورکے گھرانے سے تھی تو سکندرمرزابنگال ،بہار اور اڑیسہ کے نواب خاندان کی اولادتھے۔

ایک برس بعدکرنل مہدی کو تہران واپس بلا لیا گیا،سکندرمرزانے ناہیدسے کہا کہ وہ مستعفی ہوکر اپنا تقررایران میں بطورپاکستانی سفیرکروالیں گے۔جس پر ناہید نے سختی سے انہیں ایساکرنے سے منع کیا کیونکہ وہ اپنی بچی سمیت لندن جانے کا پروگرام رکھتی تھیں تاکہ ان کی بچی وہاں تعلیم حاصل کرسکے۔اصل میں ناہید ابھی تک سکندرمرزاکے بارہ میں شکوک شبہات ہی رکھتی تھی اور ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی بھی نہیں ہوئی تھی۔

چندماہ بعددسمبر ۱۹۵۲میں انہوں نے بالآخراپنے شوہر سے طلاق لے لی جس کے بعدسکندرمرزاکے لندن میں ان کے نام بھیجے ہوئے پے درپے محبت ناموں سے انہیں یقین ہوہی گیا کہ اسکندمرزاواقعی ان سے محبت کرتے ہیں ۔ ہرمحبت نامہ کے آخرپر ’’دل وجان سے فقط تمہارا‘‘ لکھاہوتا تھا۔اگلے برس ستمبر میں یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گئے۔

سکندرمرزاکا ارادہ تھا کہ وہ ریٹائرمنٹ لے کر بقیہ زندگی خاموشی سے اپنی نئی جیون ساتھی کے ہمراہ لندن میں گزاریں گے،لیکن جب شادی کے بعدپاکستان لوٹے تو انہیں مشرقی پاکستان کا گورنربنادیا گیا۔چونکہ وہ بنگالی پس منظر رکھتے تھے اس لئے ان سے یہ توقع تھی کہ وہ مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کے لئے قابل قبول بھی ہونگے اور ان پہ توجہ بھی دیں گے،چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ذاتی طورپر خود انہیں بھی بنگالیوں کی خدمت کرنے میں لطف آنے لگ گیا۔اس کانتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے لندن شفٹ ہونے کا خیال ترک کردیا۔

ستمبر۱۹۵۴ میں گورنرجنرل سرملک غلام محمدنے قومی اسمبلی تحلیل کردی،اسکندرمرزاکو وزیرداخلہ اور ایوب خان کو وزیردفاع مقررکردیاگیا۔جب ملک غلام محمد علاج کے لئے لندن چلے گئے تو سکندرمرزا کوقائم مقام گورنرجنرل بنادیا گیا، دوماہ مزید گزرجانے کے بعدسکندرمرزانے غلام محمد کو ان کی عدم موجودگی میں ان کے عہدے سے برطرف کردیا اورخودگورنرجنرل بن گئے۔

سنہ ۱۹۵۶ میں پاکستان اسلامی جمہوریہ قرارپایاتو سکندرمرزا متفقہ طورپر اس کے پہلے صدرمنتخب ہوئے اور یو ں ان کی محبت بیگم ناہیدسکندرمرزاپاکستان کی پہلی خاتون اول بن گئی۔آپ نے اس تاریخی حیثیت پہ فائزہونے سے قبل بھی اور بعد میں بھی اپنے شوہر کے شانہ بشانہ قومی اور ملی خدمات بجالائیں۔آپ نے خود کو پاکستانی ماحول میں رچابسالیاتھا،ساڑھی میں ملبوس رہتی تھیںاوربطورخاتون اول پاکستانی عوام کا اعتماداور پیارحاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔

افسوس کہ ملکی سیاست کے حالات ایک جیسے نہ رہے،۱۹۵۸ کا مارشل لالگا،ایوب خان وزیراعظم مقررہوئے لیکن انہوں نے صدر سکندرمرزااور ان کی اہلیہ کو ۲۸ ؍اکتوبر کی رات نیند سے جگاکر پہلے کوئٹہ میں چاردن محصوررکھا اور پھر مغربی طاقتوں کے اصرارپر براستہ کراچی لندن بھجوادیا۔

لندن پہنچنے کے بعد بالآخر بیگم ناہید اور سکندرمرزا نے اس زندگی کا آغازکیا جس کا خواب انہوں نے دس برس قبل شادی کے معاًبعددیکھاتھا۔لیکن اب سکندرمرزاکو دل کاعارضہ لاحق ہوچکاتھا۔دس برس بعد سنہ ۱۹۶۹ میںلندن میں انتقال کر گئے،۔اس وقت اقتدارپر یحیٰ خان قابض تھے،انہوں نے سکندرمرزاکی میت پاکستان لا کردفنانے کی اجازت نہیں دی۔شاہ ایران محمدرضاشاہ پہلوی نے ان کے خاندان کی منظوری کے بعد تہران میں ان کی میت کو پورے فوجی اعزازکے ساتھ دفن کرنے کے خصوصی احکامات جاری کئے کیونکہ سکندرمرزاکے دورمیں ہی پاک ایران تعلقات اپنے عروج کو پہنچے تھے اور شاہ ایران کے دل میں ہمیشہ ان کے لئے انتہائی قدرومنزلت کے جذبات موج رہتے تھے۔

اخبارکیہان کے مطابق بیگم ناہیداسکندرمرزانے بیوگی کے پچاس سال جس طرح گزارے وہ ایک الگ داستان ہے۔آپ نے خود کو مہانوں اور رشتہ داروں کی خدمت کے لئے وقف کردیاجو آپ کے ہاتھ کے پکے دیسی اور ایرانی کھانے بھی کھاتے اور آپ کی شاعری بھی سنتے۔آپ کو ایران کے صوفی شعراء کے دیوان بھی کم وبیش زبانی یادتھے اور نجی محافل اور مجالس میں وہ ان کا کلام زبانی سنایاکرتی تھیں۔

شوہرکی وفات کے بعدآپ نے پاکستان اور پاکستانیوں سے ناطہ نہیں توڑا۔آپ کے دل میں پاکستان اور ایران دونوں دھڑکتے تھے۔آپ بیگم نصرت بھٹوکی بھی دوست تھیں جو کردش ایرانی تھیں۔جب بینظیربھٹو وزیراعظم بنی تو انہوں نے بیگم ناہیدمرزاکوپاکستان مدعوکیا۔کراچی،لاہور اورپشاورمیںاپنے والہانہ استقبال پر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کے مرحوم شوہرکی چھوڑی ہوئے ذاتی یادگاراشیاء نوادرات وغیرہ دستیاب ہو سکیں لیکن ایوب خان نے ان کے گھر کی ایک چیز بھی محفوظ نہیں رکھنے دی تھی ،حتیٰ کہ سکندرمرزاکے وہ یادگارمحبت نامے بھی تلف کرڈالے تھے جو انہوں نے شادی سے قبل لکھ لکھ کرلندن بھجوائے تھے۔(بحوالہ کیہانلائف)۔

بیوگی کے پچاس سالوں کو اپنے شوہراور اس کے وطن کی یادوں سے سجانے والی بیگم ناہیدآج ہم میں موجود نہیں ۔

Comments are closed.