چین نے سنکیانگ کے علاقے کے بارے میں پائی جانے والی بین الاقوامی تنقید کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔
چین کے نائب وزیر خارجہ لی یُوچینگ نے سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے سنکیانگ کے علاقے میں مسلمانوں کو حراستی مراکز میں رکھے جانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ سنکیانگ میں بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے مقامی آبادی کے لیے تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں اور انہیں کسی بھی صورت میں حراستی کیمپ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
یوچینگ کے مطابق جیسے جیسے سنکیانگ میں شدت پسندانہ سوچ میں کمی واقع ہو گی ان تربیتی مراکز کو بتدریج کم کر دیا جائے گا۔ چینی نائب وزیر خارجہ لی یوچینگ نے مختلف ممالک کے اعتراضات کو نامناسب الزامات خیال کرتے ہوئے انہیں حقائق کے منافی قرار دیا اور کہا کہ یہ انسانی حقوق کے لبادے میں چینی داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تربیتی مراکز اصل میں بورڈنگ اسکولوں کی طرز پر قائم ہیں۔
چین کو بین الاقوامی سطح پر ان مراکز کے بند کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے ماہرین نے انہیں حراستی مراکز قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں دس لاکھ سے زائد ایغور مسلمانوں کو زیر حراست رکھا گیا ہے۔ بیجنگ حکومت کا تاہم کہنا ہے کہ یہ اقدام مسلمان آبادی میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی خطرات سے نمٹنے کے لیے کیے گئے ہیں۔
چین کے نائب وزیر خارجہ کے مطابق امریکی صدر شی جن پنگ انتظامیہ کے ان اقدامات سے سنکیانگ میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے اور گزشتہ 27 ماہ کے دوران وہاں دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انسداد دہشت گردی کی کوششیں جیسے جیسے کامیاب ہوں گی اس تربیتی پروگرام کو بتدریج کم کرتے ہوئے ختم کر دیا جائے گا۔
چینی صوبہ سنکیانگ وسطی ایشیا کے ساتھ سرحد رکھنے والے ایک وسیع علاقے پر مشتمل ہے اور وہاں ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے کئی ملین مسلمان آباد ہیں۔
DW