چین نے پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ شدید کشیدگی کے دوران اسلام آباد کی طرف سے اس کے رویے میں احتیاط کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نےمذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان پر بھارت سمیت کئی ممالک کی جانب سے جیش محمد اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ چودہ فروری کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پلوامہ میں ایک خود کش بم حملے میں چالیس نیم فوجی بھارتی اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ تب بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ جیش محمد نامی تنظیم نے پاکستان کی سرزمین سے پلان کیا تھا۔ بھارت کا یہ موقف بھی ہے کہ پاکستانی ریاست مبینہ طور پر اس تنظیم کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ دوسری جانب پاکستان اپنے خلاف ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
اس حملے نے دونوں ہمسایہ جنوبی ایشیائی ممالک کے درمیان حالیہ تاریخ کی شدید ترین کشیدگی پیدا کر دی تھی۔ دونوں ممالک کی فضائی افواج کی جانب سے ایک دوسرے کی سرزمین پر حملے بھی کیے گئے اور پاکستان نے بھارت کے ایک جنگی طیارے کو مار گرایا اور اس کے پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیا تھا۔ اس تناؤ میں کچھ کمی اس وقت ہوئی جب پاکستان نے اس بھارتی پائلٹ کو واپس اس کے ملک بھیج دیا تھا۔
اس پس منظر میں بدھ چھ مارچ کو چینی نائب وزیر خارجہ کونگ شوآن یُو نے اپنے دورہء پاکستان کے دوران کہا، ’’چین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ صورتحال پر بہت زیادہ توجہ دی۔ چین پاکستان کے مذاکرات کے ذریعے بھارت کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے فیصلے کو سراہتا ہے۔‘‘ کونگ کا مزید کہنا تھا کہ چین کا یہی موقف ہے کہ تمام ممالک کی سالمیت اور علاقائی حدود کا احترام کیا جانا چاہیے اور بیجنگ نہیں چاہتا کہ ان بین الاقوامی قوانین کی کوئی خلاف ورزی کی جائے۔
چینی نائب وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور بھارت کو دوطرفہ تناؤ کم کرنے کی کوششیں کرنا چاہییں اور جلد از جلد باہمی بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔
DW