بیرسٹر حمید باشانی
امن طاقت سے نہیں افہام تفہیم سے ممکن ہے۔ البرٹ آئین سٹائن کی اس بات کی سچائی سے انکار ممکن نہیں۔ افغانستان اس کی زندہ مثال ہے۔ دنیا کی ایک سپر پاور اپنے طاقت ور اتحادیوں سمیت گزشتہ بیس سال سے طاقت کے زور پر امن مسلط کرنے کی سہی لا حاصل میں مصروف رہی۔ اب وہ مائل بہ افہام و تفہیم ہے۔
امن نزدیک ہے۔ امن یقینی ہے۔ اورا من کا مطلب خطے میں خوشحالی اور استحکام ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی واشنگٹن اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے تناظر میں افغانستان میں امن کے قیام کی امید کا اظہار کیا ہے۔ امن ایک اچھی خبر ہے، اور ہمیشہ ایک اچھی خبر رہی ہے۔ افغانستان میں امن پورے خطے میں امن کی نوید ہے ، مگر امن کتنا ممکن اور کتنا یقینی ہے ؟
طالبان تو مذاکرات پر آمادہ ہو چکے، مگرکابل کی حکومت طالبان امریکی مذاکرات پر نا خوش ہے۔ اس کے خیال میں یہ مصالحت کی نہیں، برگشتہ کرنے کی کوشش ہے۔ ناراضگی کو گہرا کرنے کی سازش ہے۔ افغانستان کی راج دہانی کابل اور واشنگٹن کے درمیان یہ کھیل برسوں سے جاری ہے۔ واشنگٹن نے اس سے کچھ سیکھا ہو یا نہ ، مگر افغانیوں نے اس ے بہت سبق سیکھے۔ ایک نیا طرز زندگی اپنایا۔ بقا کے نئے طریقے سیکھے۔ جنگ و تباہی کے اندر جینے کا فن سیکھا۔ واشنگٹن ، کابل اور طالبان کے درمیان مذاکرات، سفارت کاری، اعتماد اور عدم اعتماد کوئی عام عمل نہیں۔ یہ ایک سنسنی خیز فلم یا تجسس خیز کہانی کا سین لگتاہے۔
افغانستان کی بات پرمجھے افغانستان پر ایلیٹ ایکرمین کا ایک ناول ، گرین آن بلیو، یاد آتا ہے ۔ یہ ناول چند سال پہلے غا لباً سال2015میں شائع ہوا تھا۔ یہ ناول اس طرز زندگی، اخلاقیات اور نظریات کی عکاسی کرتا ہے، جو افغان لوگ جنگ کی وجہ سے اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ یا جنگ کی وجہ سے جو طرز زندگی ان پر تھونپ دیا گیا، اور ان کی مجبوری بن گیا۔
ناول کا اہم کردارعزیز اس امید پر لشکر میں شمولیت اختیار کرتا ہے کہ اس طرح وہ اپنے دشمن وارلارڈ غازان سے اپنے بھائی علی کا بدلہ لے سکتا ہے، جس نے اسے ایک مارٹر حملے میں زخمی کر دیا تھا۔ اس طرح وہ علی کے علاج معالجے کے اخراجات بھی برداشت کر سکتا ہے۔ لشکر میں شمولیت سے عزیز جنگ کی فریب کارانہ سیاست کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگہی حاصل کرتا ہے۔ وہ جنگ میں ملوث مختلف گروہوں کے رہنماوں کے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ ان کا رازد ان بن جاتا ہے۔ تب اسے احساس ہوتا ہے کہ امن کے سب سے بڑے دشمن تو خود یہ لوگ ہیں۔ اور ان قبائلی رہنماوں اور وار لارڈز کی موجودگی میں امن کا قیام ناممکن ہے۔ وہ ان سے مایوس ہو جاتا ہے۔ ان کی غلطیوں سے سیکھنے کا عہد کرتا ہے۔ اور اس صورت حال کو بدلنے کے لیے خودایک گروہ کا رہنما یعنی وار لارڈبن جاتا ہے۔
اس سنسنی خیز صورت حال میں داخل ہونے سے پہلے عزیز اور اس کا بھائی دور دراز کے ایک افغان گاوں میں مٹی اور گارے کے ایک گھر میں رہتے ہیں۔ گھرمیں غربت ہے، مگر ان کو والدین کا پیار او رتحفظ حاصل ہے۔ ایک دن ایک افغان وارلارڈ ان پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ان کے والدین مارے جاتے ہیں۔ دونوں بچے چھپتے چھپاتے شہر پہنچ جاتے ہیں، جہاں وہ بھیک مانگنا سیکھتے ہیں۔ کئی سال کی مشقت کے بعد وہ شہر میں کام کاج ڈھونڈ لیتے ہیں، اور اچھی زندگی گزارنے لگتے ہیں۔
مگر پھر اچانک ایک وار لارڈ بازار پر مارٹر گنوں سے حملہ آوار ہو جاتا ہے۔ جس میں علی اپنی ایک ٹانگ اور مردانہ عضو سے محروم ہو جاتاہے۔ عزیز جب اپنے بھائی کی تلاش میں ہسپتال میں جاتا ہے تو اس کی ملاقات ایک فوجی کمانڈر صابر سے ہوتی ہے، جو اسکو لشکر میں بھرتی کر لیتا ہے۔ اس کی خدمات کے عوض اس کے بھائی کے علاج معالجے کا وعدہ کیاجاتا ہے۔ اس سے یہ بھی وعدہ کیا جاتا ہے کہ اسے اپنے بھائی کا بدلہ لینے میں مدد کی جائے گی۔ ایک پشتون کے طور پر اسے سیکھایا گیا تھا کہ اس کے لیے اس آدمی سے بدلہ لینا ضروری ہے ، جس نے اس کے بھائی کو نامرد بنا دیا ۔ اور اس کی عزت اس سے چھین لی۔
جب وہ اس لشکر کے ساتھ تربیت کا آغاز کرتا ہے، اور دشمن کے خلاف لڑنا شروع کرتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ اس کی طرح کئی دوسرے نوجوان ہیں، جن سے غازان سے بدلا لینے کا وعدہ کیاگیا ہے۔ وہ حیرت و افسوس سے یہ بھی دیکھتا ہے کہ اس کا کمانڈر صابر اس کے دشمن غازان اور اس کے حامیوں کو ایک گاوں پر حملہ کرنے کے لیے اسے اسلحہ دے رہا ، جہاں وہ اوٹ پوسٹ بنا نا چاہتاہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اس گاوں میں خوراک کی ترسیل کو بند کردیں۔ بے شک اس گاوں کے لوگ بھوک سے مر جائیں۔ اس نے یہ بھی دیکھا کہ جنگ جاری رکھنے کے لیے اس کا کمانڈرکچھ بھی کر سکتا تھا کیوں کہ جنگ اس کے لیے ایک منافع بخش کام ہے۔
اس اثنا میں عزیز کے ہاتھوں حادثاتی طور پر لشکر کے اندر ایک شخص کو گولی لگ جاتی ہے، جس سے وہ مر جاتا ہے۔ مرحوم کا بھائی بھی لشکر میں کام کرتا ہے۔ اس خوف کے پیش نظرکے اس کا بھائی بدلہ لینے کے لیے اسے مار سکتا ہے، اسے لشکر سے نکال دیاجاتا ہے۔ مگر وہ اپنے بھائی کا علاج جاری رکھنے کے لیے مجبورا کمانڈر صابر کا مخبر بن جاتا ہے۔ مخبری کے لیے وہ گاوں کے بزرگ سے معلومات لینے کی کوشش میں اس کے قریب ہو جاتا ہے، جو اسے بتاتاہے کہ وہ اندرون خانہ غزان اور امریکیوں کے درمیان بات چیت کراوا رہا ہے۔
مخبری کے دوران غزان، اٹل اور انگریز کمانڈر جیک سے ملاقاتوں سے عزیزکو اندازہ ہوتا ہے کہ غازان کو امن سے کوئی دلچسبی نہیں ہے، بلکہ وہ ایسی ڈیل کرنے کی کوشش میں ہے ، جس سے اسے زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ غزان کو گولی مارنے کے بعد اس گروپ کا لیڈر بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ اس شخص کی طرح وار لارڈ بن جاتا ہے، جس سے اسے سب سے زیادہ نفرت ہے۔
ناول میں ان حالات کی تصویر کشی کی گئی، جو افغان لوگوں کو جنگ میں شمولیت کرنے اور جنگ جاری رکھنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اس میں دشمن سے بدلہ، عزت اور مالی منعفت شامل ہے۔ اس طرح افغان مزاحمتی تحریک سے ساتھ جڑے دیگر اہم عوامل سامنے آتے ہیں۔
وزیر اعظم نے اب قیام امن اور پورے خطے میں ترقی کی خوش حالی کی نوید سنائی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ پاکستان کے خطے میں تزویراتی گہرائی کے تصور اور حکمت عملی میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اس وقت دنیا میں امن کی ضرورت سب سے زیادہ افغانیوں اور اس پورے خطے کو ہے۔ دنیا میں شائد ہی کسی جنگ نے اس قدر تباہی پرپا کی ہو، جو افغانستان پر نازل ہوئی ہے۔ افغانستان کی دو نسلیں اس جنگ کی نظر ہو گئی ہیں۔ لاکھوں افغان بچوں کا بچپن غربت و بد حالی کی نظر ہوگیا ہے۔ ہزاروں کا بچپن گندے نالوں کے گرد اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر گزرا ہے۔ ان حالات میں امن کی ایک ہلکی سی امید بھی ہوا کا تازہ جھونکا ہے۔
افغانستان سے باہر لاکھوں افغانوں کی خستہ حال زندگی اور خود افغانستان کے اندر افغان عوام کے ناگفتہ بہ حالات میں کوئی حقیقی و مثبت تبدیلی مکمل امن کے ساتھ مشروط ہے۔ امن و خوش حالی ہی افغانیوں کو وہ طرز زندگی ترک کرنے میں مدد کر سکتی ہے ، جو جنگ و تشدد کے ساتھ جڑچکی ہے۔ اس طرز زندگی میں تشدد اور مار دھاڑ معاش اور بقا کا واحد زریعہ بن چکا ہے۔ حقیقی امن نا صرف ان تباہ حال افغانیوں کی زندگی بدل دے گا ، بلکہ وہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔
♦