خان زمان کاکڑ
اس قیادت کا کیا کیا جائے جو یہاں قوموں کی نسل کشی اور عوام کے قتل عام پہ کبھی ایک پیج پر نہیں آئی بلکہ کسی بھی لحاظ سے ان سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ملکی قیادت کے طور پر کسی نہیں تسلیم نہیں کیا۔ آج جب انڈیا دشمنی کے نام پر فوجی سلطنت کو استحکام بخشنے کی ضرورت پڑی تو ہر ایک صرف یہ جملہ دہراتے ہوئے نظر آتا ہے کہ ساری “قومی قیادت” ایک پیج پر ہے۔ ہم یہ پوچھنے میں حق بجانب ہونگے کہ یہ آخر کس “قوم” کی قیادت ہے؟
ہم جنگوں کے خلاف ہیں، ہم جنگوں کو عوام دشمن سمجھتے ہیں، ہماری مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان جنگوں کے ذریعے استعماری خطوط پہ استوار ریاستیں سماج میں قوم پرست اور ترقی پسند سیاستوں کے لئے گنجائش خطرناک حد تک کم کرتی رہی ہیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں لیا جائے کہ عوام کے اصلی مسائل کو پسِ پشت ڈال کر صرف انڈیا ،پاکستان تعلقات کی کلاس چلتی رہے گی۔
میں نہیں مانتا کہ ایک شخص جو فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کے انتہائی بے دردی سے قتل اور اغوا ہونے کے خلاف بات نہیں کرتا، وہ خطے میں امن کا خواہاں ہوگا۔
میں اس شخص کے say no to war کو ایک بکواس سمجھتا ہوں جو افغانستان میں پاکستان کی تین دہائیوں سے جاری جنگ کے خلاف کبھی نہیں بولا ہے۔
میں پارلیمان کی بالادستی سے منکر لوگوں کا امن پسند ہونا چیلنج کرتا ہوں۔
میں پشتوں سرزمین پہ دہشت گردی کے آگے پیچھے، اوپر نیچے اور دائیں بائیں وردی کو چھپانے والے سیاستدانوں کو اس خطے میں جنگ کیطوالت اور جنگی اقتصاد کی وسعت کے مساوی ذمہ دار سمجھتا ہوں۔
سیاسی جاہل ہے وہ شخص جو پاکستان اور انڈیا کے موجودہ ٹینشن کے بڑے سیاق و سباق کو نظر انداز کرکے عمران خان کی بصیرت سے متاثر ہوا ہوا لگتا ہے۔
خسارے میں ہیں اس ملک کے لبرلز جو امن کی نعرہ بازی اور حب الوطنی کو بیلنس کرتے ہوئے جنرل غفور کے دلدادہ نظر آئے۔
قابلِ رحم ہیں ہمارے بعض قوم پرست نمائندے جو امن کا اپنا تاریخی بیانیہ پاکستان کی مقبول مسلم لیگی بلیک میلنگ پہ قربان کرگئے اور اس طرح سے بولے جیسے کوئی نوائے وقت کا گھٹیا صحافی بولتا ہے۔
افسوس ہوتا ہے بہت سارے جو پشتون وطن میں جنگ و دہشت گردی کے خلاف جاری احتجاجی تحریک میں قوم کا آخری آسرا لگتے تھے انڈیا سے لڑائی کی بات آتے ہی جنگی قوماندانوں جیسے بولنے لگے اور سر پر وہی فیک حب الوطنی سوار کرگئے جس کا سب سے بڑا شکار خود پشتون رہے ہیں۔
♦