ارشد بٹ
عمران خان کی جانب سے پائلٹ کی رہائی پر نریندر مودی کی مقبولیت کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ دوسری جانب پاکستانی سفارتی تنہائی اور ناکامی اپنے عروج کو چھوتی نظر آ رہی ہے۔ پاکستان پر بھارتی فضائی جارحیت کی دنیا بھر میں کسی ملک نے مذمت نہیں کی۔ تشویشناک بات کہ پاکستان کے عزیز ترین دوست ممالک نے بھی بھارتی جارحیت کی مذمت کرنے سے پر ہیز کیا۔ ان ممالک میں چین اور سعودی عرب سر فہرست ہیں۔ ایسا لگتا ہے عالمی سطع پر بھارت کا یہ بیانیہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ اسکا فضائی حملہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لئے کیا گیا تھا۔
پاکستان کی ناکارہ سفارتکاری کا ایک اور منہ بولتا ثبوت بھارتی وزیر خارجہ کا اسلامی کانفرنس میں بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جانا ہے۔ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے اسلامی کانفرنس کے احتجاجی بائیکاٹ نے پاکستانی سفارتی تنہائی پر جلتی کا کام کیا۔ اسلامی کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں نہ کشمیر کا ذکر اور نہ بھارتی فضائی حملے کی مذمت یا تشویش کا اظہار۔ شاہ محمود قریشی کی بائیکاٹ پالیسی نے اسلامی کانفرنس کا پلیٹ فارم بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی دسترس میں دے دیا۔
حکومت کے قیام کے بعد وزیر اعظم عمران خان، آرمی چیف اور وزیر خارجہ نے اوپر تلے بیرونی ممالک کے کئی دورے کئے۔ اس کے باوجود سفارتی ناکامی اور تنہائی تشویشناک صورت اختیار کر چکی ہے۔ شاہ محمود قریشی نہ جانے کن سفارتی کامیابوں پر اتراتے پھرتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے او ای سی کے بند کمرے کے اجلاس میں بھارتی مذمتی قرارداد کو بڑا سفارتی کارنامہ گردان رہے ہیں۔ مگر کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں بھارتی حملے کی مذمت اور کشمیر کا ذکر نہ ھونے پر پاکستانی وزیر خارجہ کو کسی قسم کی پریشانی لاحق نہیں ہوئی۔
قرائن بتاتے ہیں کہ عمران خان ڈالر جمع کرنے اور اپوزیشن کو سبق سکھانے میں اتنا کھو چکے ہیں کہ انھیں بھی ملک کی سفارتی تنہائی اور ناکامی کا احساس نہیں ہو رہا۔ وہ شاہوں اور ولی عہدوں کی ڈرائیونگ کر نے اور ان سے دوچار ارب ڈالروں کا قرض حاصل کرنے کو ہی کامیاب ڈپلومیسی سمجھ بیٹھے ہیں۔
بھارت کی جانب نظر دوڑائیں تو بھارتی وزیر آعطم نریندر مودی کے جنگی جنون کو بھارت کے اندر سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارتی اپوزیشن جماعتوں، امن کے حامی تجزیہ نگاروں، سول سوسائٹی اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ مودی پلوامہ ہلاکتوں پر سیاست کر رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے خلاف جنگی جنون اور انتہا پسند ھندو قوم پرستی کو انتخابات میں کامیابی کی کنجی سمجھتے ہیں۔ مگر سیاسی حالات کا رخ متعین کرنا اب انکے اختیار سے باہرہوتا نظر آ رہا ہے۔
بالا کوٹ پر فضائی حملوں میں منہ کی کھانے کے بعد عوام سے اصل حقائق چھپانے پر مودی حکومت اپوزیشن سیاسی جماعتوں، پریس اور دانشوروں کے پابڑتوڑ حملوں کی زد میں ہے۔ انتہا پسند ھندو قوم پرستی اور جنگی نعرہ بازی اب مودی اور بی جے پی کے لئے کانٹوں کی سیج بنتا جا رہا ہے۔
مودی مقبولیت کی انتہاوں کو چھونے کے بعد زوال کی راہوں پر گامزن ھوتے نظر آ رہے ہیں۔ پلوامہ ہلاکتوں کے بعد مودی کی جنگی حکمت عملی نے آئندہ الیکشن میں بی جے پی کی کامیابی کی راہ میں بڑی مشکلات حائل کر دی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی موثر انتخابی مہم، مودی اور بی جے پی کو شکست سے دوچار کرسکتی ہے۔ بھارتی تجزیہ کار لکھ رہے ہیں کہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں آئندہ انتخابات میں بی جے پی کے لوک سبھا میں تقریبا ایک سو نشستیں کم لینے کے واضح امکانات نظر آ رہے ہیں۔ انتہا پسند ھندو قوم پرستی اور جنگی جنون بلآخر مودی اور بی جے پی کی سیاست اور حکومت کو لے ڈوبے گا۔
♦