جمیل خان
کراچی میں شادی بیاہ کی کوئی تقریب ہو یا فوتگی کے موقع پر سوئم یا چالیسواں ہو…. اب یہی مواقع رہ گئے ہیں، جب عزیز رشتہ داروں سے ملاقات ہوتی ہے۔ پچھلے ماہ ہمیں بھی مجبوراً ایسی ہی کئی تقریبات میں شرکت کرنی پڑی۔ کراچی کے اردو بولنے والے جو اس شہر کو اون کرتے ہیں، ان کی اکثریت نے اپنی ثقافت کو عرب ثقافت پر قربان کردیا ہے۔ کل کے بچے جنہوں نے ابھی نوجوانی کی دہلیز پر قدم ہی رکھا ہے، بڑی بڑی داڑھیاں رکھے دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی سبز مولوی کی دُم پکڑ کر چل رہا ہے تو کوئی سفید مولوی کی…. کوئی خود ہی چار چلّے کاٹ کر علامہ بن بیٹھا ہے۔ جنہوں نے داڑھی نہیں رکھی ہے، ان کو بھی آپ روشن خیال نہیں سمجھ سکتے۔ انہوں نے منافقت میں خود کو مذہبی شعائر سے دور کر رکھا ہوا ہے، لیکن بہت سے باریش اور نمازی افراد سے کہیں زیادہ مذہبی کتّا پن ہمیں اُن کے اندر نظر آتا ہے۔
کراچی کے اردو بولنے والے کسی عرب دھوبی کا وہ کتا بن کر رہ گئے ہیں، جو نہ گھر کا رہا ہے نہ گھاٹ کا۔ کراچی میں شاید سوا کروڑ کے لگ بھگ اردو بولنے والے بستے ہوں گے، لیکن شاید ایک فیصد کو ہی معلوم ہو کہ اردو زبان اپنی ابتداء میں ایک سیکولر زبان تھی، جس کی نظم و نثر میں ولن شیخ، واعظ، مولوی، مؤذن یا محتسب ہوا کرتا تھا، اور ہیرو کا درجہ رند یعنی آزاد منش انسان کو دیا جاتا تھا۔ اردو شاعری میں سکون کی جگہ مئے خانہ تھی، جبکہ بے سکونی کی جگہ حرم، مسجد و مندر….!۔
آج میرؔ و غالبؔ کے بزعم خود ورثاء کو دیکھیے، وہ اپنے ظاہری حلیے سے میرو غالب کے دور کی کہانیوں کے شیخ چلی یا بغداد کے ڈاکو دکھائی دیتے ہیں۔
چند دن پہلے ایک شادی کی تقریب میں ہم اپنی نشست پر بیٹھے اردو بولنے والوں کی نوجوان نسل کا جائزہ لے رہے تھے۔ 80 فیصد بدبودار مولوی بن چکے ہیں۔ جنہیں بات بات پر سنت کی تجدید یاد رہتی ہے۔ یہ کام شریعت میں تو یوں مذکور نہیں ہے۔ کئیّوں کو ہاتھ سے انتہائی کراہت آمیز طریقے سے کھانا کھاتے دیکھ کر ہمیں تو اُبکائی ہی آگئی۔
ان کی اکثریت درست اردو زبان بولنا نہیں جانتی، درست لکھنا تو دور کی بات ہے۔ ہم لہجے کی بات نہیں کررہے ہیں، لہجہ بالکل الگ چیز ہے، اور اردو کو یہ افتخار حاصل ہے کہ یہ زبان چٹاگانگ سے لے کر دبئی تک ہزاروں لہجوں میں بولی جاتی ہے۔ لیکن الباکستان میں جو لوگ اردو زبان کا وارث خود کو سمجھتے ہیں، ان کی اکثریت اردو زبان کی نہ تو گرامر سے واقف ہے نہ اس کے روزمرّہ محاورے، کہاوت اور ضرب المثل کا انہیں کوئی علم ہے۔
یہ سارے وہ نمونے ہیں، جنہیں اپنی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے زیادہ نماز کی نمائش کی فکر رہتی ہے۔ اُس روز پی ایس ایل کا میچ دیکھنے کے لیے اس قدر اُوتاؤلے ہوئے جارہے تھے کہ جیسے پی ایس ایل صحابہ یا تبع تابعین کے دور میں بھی اسی جوش و خروش سے کھیلا جاتا تھا (نعوذباللہ)…. بینکوئٹ منیجر کے آفس میں ٹی وی پر یہ میچ دیکھنے کے لیے یوں ایک دوسرے پر گرے پڑ رہے تھے، جیسے کہ تدفین کے موقع پر میت کا آخری دیدار کرنے کے لیے مرے جارہے ہوتے ہیں۔
کسی عزیز کی تدفین کے موقع پر ایک نوجوان کو ہم نے سنبھالا جو میت کی صورت دیکھنے کے لیے اتنے بیتاب ہوئے کہ قبر میں گرتے گرتے بچے۔ ہم نے ان کو بازو سے پکڑا اور پوچھا کہ …. کیوں میاں صاحبزادے، ان کے ساتھ ہی دفن ہونا چاہتے ہو؟
شاید میت کی صورت دیکھنے کا کوئی ثواب ہوتا ہو، کیا کرکٹ میچ دیکھنے کا بھی ثواب ہوتا ہے؟
یہی صاحبزادے اور حرامزادے ہیں جو موسیقی تو چھوڑیے، قوالی سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے، کہ حرام ہے۔ عہدِ نبوی میں کہاں میوزک ہوتا تھا؟ ہم نے ایک سے عرض کی، حضرت اس دور میں تو نہ بجلی تھی، نہ گیس تھی، نہ موجودہ ذرائع آمدورفت تھی۔ غالبؔ کے دور تک ہندوستان میں آگ بھٹیارن سے خریدی جاتی تھی، تو چودہ سو برس پہلے ماچس کا تصور کہاں تھا؟ اور عہدِ نبوی کی تمام مستند تاریخ کا مطالعہ کرلیجیے، آپ کو وہاں پہیہ بھی نہیں ملے گا۔
تو پھر آپ شریعت شریعت اور بدعت بدعت کرتے ہوئے عجیب و غریب حلیہ بنا کر اپنی ثقافت کا جو بلاتکار کررہے ہیں، آخر شریعت کو پورا پورا اپنی زندگی میں داخل کیوں نہیں کرلیتے؟ اور تمام جدید سائنسی ایجادات جن کا تصور بھی چودہ سو برس پہلے ممکن نہیں تھا، انہیں اپنی زندگی سے خارج کیوں نہیں کردیتے؟
اپنے اپنے گھروں میں جدید باتھ روم توڑ دالیے، حوائج ضروریہ و غیرضروریہ کے لیے اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ جنگل تشریف لے جایا کیجیے۔ اونٹ سواری کے لیے استعمال کیجیے۔ کھجور بطور غذا استعمال کیجیے۔ گندم یا کسی بھی اناج کی روٹی تو عربوں کی غذا نہیں ہوا کرتی تھی، اس لیے کہ اناج نہایت قیمتی ہوتا تھا، اور انتہائی دولت مند افراد ہی اس عیاشی کا تصور کرسکتے تھے۔
آپ کہیں گے کہ یہ ساری خرابات تو ملک کے ہر حصے میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ٹھیک ہے، ہوا کرے، لیکن ہم تو پہلے اپنے شہر، اپنے برادری اور اپنی ہم زبان لوگوں کے دماغوں میں بھرے گوبر کا ہی رونا روئیں گے۔
اردو بولنے والے ہندوستانی، جنہوں نے اپنی سیاسی شناخت مہاجر اختیار کرلی ہے، اور بہت سے تو خود کو مدینے سے بھی جوڑلیتے ہیں، وہ عربوں سے جاکر کیوں نہیں کہتے کہ ہم بھی مہاجر ہیں، ہمیں بھی مدینہ کی شہریت دی جائے۔ ہمیں یقین ہے کہ عرب ان کی تشریفوں پر مہر تصدیق ثبت کردیں گے۔
ہمارا غم و غصہ اس لیے جائز ہے کہ کراچی کے بہت سے لوگ سعودی عرب چار برس گزار کر آتے ہیں تو ٹخنے تک لمبا کرتا پہنے محلے میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں، بعض تو عربوں کے مخصوص رومال بھی سر پر باندھے نظر آجاتے ہیں۔ لیکن ہم سندھی ثقافت کے دن سندھی ٹوپی یا اجرک پہن لیں تو ایسے ہی کئی لوگوں کو نامعلوم کہاں تکلیف ہوجاتی ہے۔
ان لوگوں سے ہمارا سوال ہے کہ تم لوگ چار سال عرب میں گزارنے کے بعد ان کی ثقافت تو اپنا سکتے ہو، بلکہ ان کی ثقافت کے سامنے اپنی ثقافت کا گلا بھی کاٹ دیتے ہو، لیکن جہاں ستر بہتر برس سے مقیم ہو، جس مٹی میں تمہارے باپ دادا دفن ہیں، وہاں کی ثقافت کے نام سے تمہاری والدہ محترمہ کی والدہ محترمہ فوت ہونے لگتی ہیں۔
ابھی پچھلے مہینے ہم رشید شورو بھائی اور محترم اختر بلوچ کے ہمراہ کسی سے ملنے جارہے تھے کہ لفٹ میں ایک نوجوان ایسا ہی طویل کرتا پہنے چڑھا، وہ ہم لوگوں کو بار بار گھور رہا تھا اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ہمیں دین میں پورا پورا داخل کردے۔ جبکہ ہمارا بس نہیں چل رہا تھا کہ ہم اس سے کہیں کہ بھائی کیا تازہ تازہ ختنہ کروایا ہے؟ اور ڈاکٹر نے شلوار یا پاجامہ پہنے سے منع کیا ہے؟
ایک مرتبہ ایسے ہی کوئی دانے دار دین دار ہمیں آن ٹکرائے تھے، باتوں باتوں میں ہم سے کہنے لگے کہ آپ کو دین میں پورا پورا داخل ہوجا چاہیے۔ ہم نے عرض کی، بھیّا…. بچپن میں بغیر ہماری مرضی کے کاٹ دیا گیا تھا، اب تو پورا نہیں رہا، اس لیے پورا پورا تو داخل نہیں ہوسکتے۔
جس سندھ میں ہم رہتے ہیں، وہاں آج بھی مکمل طور پر عرب ثقافت کی غلامی اختیار نہیں کی گئی ہے۔ چالیس برس پہلے تو اس کا ایسا تصور بھی نہیں تھا، سندھ کے تہوار، عید بقرید کے بجائے سچل سرمست، شاہ بھٹائی، شہباز قلندر اور جھولے لعل کے میلے ہوا کرتے تھے۔
آج بھی اس دھرتی کے ایک بیٹے جاوید بھٹو کی میّت امریکا سے حیدرآباد پہنچتی ہے تو آنسوؤں اور سسکیوں کے درمیان شیخ ایاز کی نظم ’’ٹری پوندا گاڑھا گل‘‘ گا کراس کا استقبال کیا جاتا ہے۔ تدفین کے وقت بھی شاید شاہ بھٹائی کی کوئی نظم گائی گئی تھی۔
سندھ کے معروف اسکالر رسول بخش پلیجو کی میت جب تدفین کے لیے کراچی سے ان کے آبائی گاؤں لے جائی جارہی تھی تو راستے بھر، دونوں اطراف ہزاروں خواتین نے کھڑے ہوکر ان کو خراج تحسین پیش کیا تھا، اور اسی طرح شاہ بھٹائی یا شیخ ایاز کی نظمیں گائی تھیں۔
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر حیدرآباد کا خواتین مارچ ملک بھر کے تمام مارچ سے کہیں زیادہ بڑا اور منظم تھا، اور اس میں معاشرے کے تمام طبقات کی خواتین نے شرکت کی تھی، افسوس کہ مین اسٹریم میڈیا نے تو اس کو نظرانداز کیا سو کیا، سندھی میڈیا نے بھی اس کا بلیک آؤٹ کردیا۔ کوئی بات نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس سے بھی اس مارچ کی روح رواں امر سندھو صاحبہ اور دیگر متحرک خواتین میں مزید ہمت پیدا ہوگی، اور امید ہے کہ اگلے برس یہ تعداد کئی گنا زیادہ ہوجائے ۔
سندھ سماجی تبدیلی کے لیے بہت زرخیز ہے، گوکہ گزشتہ دس برسوں کے دوران کرپشن کے پیسے نے سندھی بولنے والوں میں نمازوں، عمروں اور حجوں کی منافقانہ روایت پروان چڑھانے میں کافی اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن آج بھی اکثریت مولوی ملّا کا ٹھٹھا ہی اُڑاتی ہے۔ سیاسی لحاظ سے بہت سے تفرقات ملیں گے، لیکن سماجی لحاظ سے اکثریت مشترکہ فکر کی حامل ہے۔
چنانچہ ہماری تجویز تو یہی ہے کہ اردو بولنے والی کمیونٹی کے گنے چنے باشعور، روشن خیال اور ترقی پسند افراد جو موقع پرست نہیں ہیں، کو سندھی زبان بولنے والوں کے ساتھ مل کر سماجی تبدیلی کی جدوجہد میں ایک دوسرے کی مدد کرنی چاہیے، اسی میں ان کی بھلائی اور بقا ہے، ورنہ …. آپ کی اکثریت تو سماجی، معاشی، اخلاقی طور پر تباہ ہوہی چکی ہے، آپ بھی اسی اکثریت کے پیچھے چل پڑے تو آپ بھی تباہی سے نہیں بچ سکیں گے۔
♦
2 Comments