آصف جاوید
پوری دنیا میں معیشت کے کچھ آفاقی اصول ہوتے ہیں۔ چھوٹا کاروبار ،معیشت کے آفاقی اصولوں میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشی نظام چھوٹے کاروبار کی ضرورت اور اہمیت سے انکار کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا۔ دنیا کے ہر معاشی نظام میں چھوٹا کاروبار امیدِ صبحِ نو اور نچلے درجے کی اصل معیشت کو چلانے والا انجن ہوتا ہے۔
چھوٹے کاروبار کی اہمیت اور ضرورت بیان کرنے سے قبل میں اپنا ذاتی مشاہدہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ یہ 1987 کی بات ہے، میں اس وقت ملازمت کرتا تھا، شام کو جاب سے آنے بعد میں بیٹی کو گود میں اٹھا کر باہر تفریح کرانے لے جاتا تھا۔ ایک گروسری و جنرل اسٹورکے سامنے چھوٹی سی ٹیبل پر ایک لڑکا آلو کے فنگر چپس بنا کر بیچ رہا ہوتا تھا، میری بیٹی کو یہ چپس بہت پسند تھے، دوروپے کی چھوٹی پُڑیا اُس کو بہت کافی ہوتی تھی۔
میری اس لڑکے سے تقریبا” روز بات چیت ہوتی تھی، پوچھنے پر اس نے بتایاکہ دِن میں نوکری کرتاہے ، شام 6 بجے سے آلو کے چپس بنا کر فروخت کرنے کا کام شروع کرتا ہےاور رات 12 بجے کام ختم کرتا ہے۔ اور یہ ٹیبل، بالٹی، چاقو اور ڈیپ فرائر اُس کا کل اثاثہ ہے، بجلی کی سپلائی پیچھے والی دکان کے مالک سے کرایہ پر لی ہوئی ہے جس سے ایک بلب اور ڈیپ فرائر چلاتا ہے، آلو ،کونے پر سبزی والے سے ادھار پر خریدتا ہے، تیل بھی گروسری والے سے ادھار پر ہی لیتا ہے، آلو اور تیل کے پیسے روز کے روز کے روز چکُا دیتا ہے، بجلی کا خرچہ مہینے کے آخر میں دیتا ہے۔ سارے خرچے نکال کر روزانہ ڈیڑھ، دو سوسے تین سو روپے آسانی سے کما لیتا ہے۔
سنہ 2000ء میں جب میں کینیڈا آرہا تھا تو اس وقت یہ چپس بیچنے والا لڑکا سامنے بننے والے پلازہ میں تین دکانوں کا مالک بن چکا تھا ، جس میں دو دکانوں میں اُس نے گروسری اسٹوراور ایک دکان میں مرغی کے گوشت کی دکان بنائی ہوئی تھی، چار ملازم اس کے پاس کام کرتے تھے۔ 1987 میں اُس کے پاس سائیکل بھی نہیں تھی ، اور سنہ 2000ء میں وہ ایک گروسری اسٹور اور مرغی کے گوشت کی دکان کا مالک تھا، اور یقینا” لاکھوں روپے بھی کما چکا ہوگا۔
یہ سب ایک چھوٹے سے کاروبار کی برکت تھی جس نے اسے خود کفالت، معاشی خوشحالی اور ترقّی کی منازل طے کرائیں۔ چھوٹا کاروبار معاشی خود کفالت اور معاشی خوشحالی کا پہلا زینہ ہے۔ معاشی خوشحالی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے، اس ایک نعمت نے باقی تمام نعمتوں کا وزن اٹھایا ہوتا ہے۔
مجھے بچپن سے بچّوں کے چھوٹے کاروبار کا وسیع تجربہ ہے، میں اپنے بچپن میں کبھی روپے پیسے سے تنگ نہیں رہا، بچپن میں بھی میں اپنا چھوٹا کاروبار کرتا تھا، گرمیوں کی چھٹّیوں میں لاٹری لگاتا تھا، واٹر بال اور بچّوں کے کھلونوں کا اسٹال لگاتاتھا، آنہ لائبریری اور پتنگوں کی دکان لگاتا تھا، اور خوب پیسے کماتا تھا۔ جب یونیورسٹی میں پہنچا تو امیر گھرانوں کے بچّوں کو فزکس، کیمسٹری اور میتھ میٹکس کی مہنگی ٹیوشن دے کر خوب نوٹ کمائے، کبھی تنگ دستی کا منھ نہیں دیکھا۔ ٹیوشن کے پیسوں سے ہی پہلی ہونڈا 175 خریدی تھی۔
سنہ 1990 ء میں، میں نے خود نوکری کے ساتھ ساتھ کم سرمائے سے رئیل اسٹیٹ میں پلاٹوں کی خرید و فروخت کا کام شروع کیا تھا، پھر مکان بنا کر بیچنے کا کام شروع کردیا ، کاروبار نے ترقّی کی تو نوکری چھوڑ کر ماربل کا کارخانہ لگادیا، گڈانی پر شِپ بریکرز سے جہاز کے بوائلرز ، پانی کے پمپ، موٹریں، اور دوسرا انڈسٹریل سازوسامان ، وزن کے حساب سے خریدتا تھا اور ری فربشنگ کرکے عدد کے حساب سے بیچتا تھا۔ اور پچھتا تا تھا کہ کیوں نوکری میں وقت ضائع کیا۔
جب میں گڈانی سے شِپ بریکنگ سے سامان کی لاٹیں اٹھاتا تھا اور میرے پاس سرمایہ کم پڑ جاتا تھا تو خوشحال دوستوں کا پول بنالیا کرتا تھا، اور جب ڈیل مکمّل ہوجاتی تھی، منافع ایمانداری سے تقسیم کردیا کرتا تھا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا، اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا، کہنے کو تو یہ ایک ڈائیلاگ ہے، مگر عقل والوں کے لئے اِس ڈائیلاگ میں بڑی نشانیاں ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو روز مرہ کی کئی چھوٹی چھوٹی مثالیں اس ڈائیلاگ سے مطابقت رکھتی ہیں ۔ مونگ پھلی کی ریڑھی لگانے والا، پھل فروش، برگر والا ، چائے والا، اور سڑک کے کنارے چھوٹے چھوٹے ٹھیلوں پر بریانی اور کباب بیچنے والے اس کی زندہ مثال ہیں جو تھوڑی سی سرمایہ کاری سے ایک معقول آمدن حاصل کر رہے ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم چھوٹےکاروبار کو گھٹیا اور کمتر سمجھتے ہیں، اور چھوٹا کاروبار کرنے کی بجائے کچھ بڑا کرنے کا پلان کرتے ہیں، پہلی سیڑھی چڑھنے کی بجائے آخری سیڑھی پہ پہنچنے کی جلدی کرتے ہیں۔ سٹارٹ میں ہی آفریدی کی طرح چھکا مارنا چاہتےہیں اور کلین بولڈ ہو جاتے ہیں اور پھر حوصلہ ہار جاتے ہیں ۔ ہماری یہ کالج یونیورسٹی کی پڑھائی اور ہماری ڈگری بھی ہم پر کاروبار کے دروازے بند کردیتی ہے۔ جتنی بڑی ڈگری ہوگی اُتنا ہی ہم میں کاروبار سے ہچکچاہٹ پیدا ہوتی جائے گی۔
اگر ہم میں کاروبار کی خواہش بیدار بھی ہوجائے تو ہم وائٹ کالر اور ایسے کاروبار کو ترجیح دیں گےجس میں ہاتھ میلے نہ ہوتے ہوں اور کپڑوں پر داغ نہ آتا ہو۔ ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوان ہیں جو دوسروں کی نوکری تو فخریہ کرلیتے ہیں لیکن اپنا چھوٹا کاروبار کرنے میں انہیں بہت شرم آتی ہے۔ آج بھی کراچی، لاہور، پشاور کے بڑے تجارتی مراکز پر آپ کو ایسے ہزاروں مالدار کاروباری لوگ مِل جائیں گے جو محض اپنی رسمی تعلیم کے ساتھ کروڑوں کا کاروبار کررہے ہیں اور ماسٹرز و پیچلرز کی ڈگری والے ان کے یہاں ملازمتوں کی درخواستیں لئے لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
کم سرمائے سے ایک چھوٹا کاروبار شروع کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، یہ ہر کس و ناکس کی بات نہیں ،اس کے لئے بڑا دل چاہئے، کاروبار وہی لوگ کر سکتے ہیں، جنہیں اپنی ذات پر اعتماد ہو، اپنے آپ پر بھروسہ ہو، نقصان برداشت کرنے کی صلاحیت ہو، محنت کرنے کی عادت ہو، چھوٹا کاروبار وہ چیلینج ہے جسے صرف مہم جُو طبیعت کے لوگ قبول کرتے ہیں۔
کاروبار میں بیچ میں کوئی کُشن نہیں ہوتا، جو اونچ نیچ برداشت کرلے، کاروبار میں نفع اور نقصان ، دونوں مالک کے سر ہوتے ہیں۔ یاد رکھیے کاروبارمہم جُو اورباصلاحیت لوگوں کا کام ہے۔ اس کے لیے جو کچھ کرنا ہے آپ کو ہی کرنا ہے۔ اس میں بظاہر آپ کی مدد کوئی نہیں کرے گا۔ نہ ہی آپ کے نقصان میں شریکِ کار بنے گا، نہ ہی منافع میں حصّہ داربنے گا ۔
اپنی آنکھیں کھلی رکھیں، اپنے اردگرد ایسے لوگوں کو تلاش کرتے رہیں جو آپ سے پہلے کامیاب کاروبار کررہے ہیں، یا کر چکے ہیں ان سے ملیں اور مشورے لیتے رہیں۔ چھوٹے کاروبار میں رقم سے زیادہ ارادہ درکار ہوتا ہے۔ کامیابی کا دارومدار آپ کی محنت، قوّتِ ارادی اور مستقل مزاجی پر ہوتا ہے۔
اگلے مضمون میں ہم معاشی ترقی میں سمال اینڈ میڈیم اینٹرپرائیزس (ایس ایم ایز) کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔
♦