کوی شنکر
نیوزی لینڈ میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد جس طرح وہاں کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ کھڑی رہی اس پر پوری دنیا وزیراعظم جسنڈا آرڈرن کی تعریف کرتے نہیں تھک رہی۔۔ خود ہماری حکومت ،وزیراعظم پاکستان سمیت وزرا ، سیاستدان اور ہر عام و خاص دہشتگردی کے بعد اٹھائے گئے اقدامات کو بہترین قرار دے رہا ہیں لیکن یہ سب اپنے ملک میں ایسا کرنے کےلئے تیار نہیں۔
چلو مانا کہ پہلے نہیں ہوا۔۔ نیوزی لینڈ کی ہی پیروی کرلیں۔۔۔اب تو مثال بھی ہے۔۔۔ کہ سیکیولر معاشرے کیسے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں پوری دنیا میں واقعات پر فوری ردعمل دینے کی چابک دستی ہے۔۔ لیکن اپنے ملک میں کسی بھی واقعے پر خاموشی برقرار ہے۔چھ فروری کو بہاولپور کی تحصیل یزمان کے ایک گاؤں سے مسیحی برداری کی تیرہ سالہ طالبہ صدف کو اغوا کیا گیا پھر اس کا جبری مذھب تبدیل کرادیا گیا۔۔۔صدف کے والدین اور مسیحی برادری کوصدف کے معاملے پر چپ رہنے کے لئے دھمکایا جاتا رہا۔ اور جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پر مسیحی برادری کے احتجاج کے بعد بھی وہی روائتی خاموشی برقرار ہے۔
ہولی کی رات گھوٹکی کی تحصیل ڈہرکی کے ایک گاؤں سے دو بہنیں اغوا ہوتی ہیں۔۔ اغوا کارنابالغ رینا اور روینا کو رحیم یارخان کی درگاہ پر لے جاکر جبری مذہب تبدیل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نکاح کرلیتے ہیں۔۔۔ اغوا کار صفدر اوربرکت پہلے ہی شادی شدہ اور بچوں کو باپ بھی ہیں۔۔۔ لڑکیوں کی بازیابی کے لئے ہندوبرادری نےاحتجاج بھی کیا لیکن انہیں طفل تسلیوں کے سوا کچھ نہ ملا۔۔
اس واقعے کے بعد حیدرآباد کے علاقے ٹنڈو یوسف سے بھی چودہ سالہ سونیا بھیل کو اغوا کیا گیا، لیکن سوشل میڈیا پرآواز گونج رہی ہے۔۔۔ باقی سب خاموش ہیں۔۔ لیکن رینا اور روینا کے اغوا اور جبری مذہب تبدیل کرانے کا واقعہ سوشل میڈیا پرسامنے آنے کے ساتھ ملکی حدود سے باہر تک جا پہنچا۔۔اور اس پر ردعمل آنا شروع ہوا۔ پہلے بھارتی حکومت اور اس کے بعد امریکہ سے ردعمل آیا۔
سشما سوراج کی طرف ہندو لڑکیوں کے اغوا اور جبری مذہب کی تبدیلی پر ردعمل کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سامنے آئے۔ لیکن سندھ حکومت ، چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرادری اور سندھ میں منتخب اقلیتی وزرا اور ارکان اسمبلی خاموش ہیں۔ جس سے بے حسی ظاہر ہوتی ہے۔ وفاقی وزرا میں سے پہلے مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی کھیئل داس کوہستانی سب سے پہلے لب کشائی کی تھی۔۔ جس کے تین روز بعد تحریک انصاف کے ایم این اے ڈاکٹر رمیش کمار بھی سامنے آئے۔۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقلیتی برادری خاص طور پر ہندوبرادری کے ارکان اسمبلی منافق ہیں۔ جو ہندو برادری کو درپیش مسائل کے سوا ہر ایشو پر بات کرتے ہیں۔۔
بھارت کی طرف رینا اور روینا کے معاملے پر بات کرنے اور حکومت پاکستان کے ردعمل کے بعد یہ واقعہ پاکستانی قومی میڈیا کی زینت بنا۔۔ حالانکہ اس خبر کی رپورٹنگ میں بہت جھول ہے وجہ صاف ہے کہ مسلمان کے نزدیک تبلیغ ایک اہم مذھبی فریضہ ہے۔۔ مسلمان خود اچھا بننے کے بجائے دوسرے مذہب کی افراد کو دائرہ اسلام میں لانے کی جستجومیں رہتے ہیں۔ چاہے وہ غیر مسلم خود کتنا ہی لاکھ درجے اچھا نہ ہو۔۔۔
جیسے حالیہ دنوں میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسنڈا آرڈرن کے ساتھ مسلم نوجوان کی وڈیو سوشل میڈیا کی زینت بنی ہوئی ہے جس میں وہ نوجوان جسنڈا کو دائرہ اسلام میں آنے کا پیغام دیتا ہے۔۔ جس پر وہ مسکرا دیتی ہیں۔۔۔ ہمارے یہاں بھی اسی طرح ہے۔ کئی برس پہلے بس میں سفر کے دوران ساتھ بیٹھے ایک باریش بزرگ نے نے بات چیت شروع کی، جب اپنا تعارف کرایا تو فوراً اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔
میں نے گذارش کی میں جہاں ہوں بہت خوش ہوں۔۔ اور بیشتر مذاہب کا مطالعہ اسکول لائف میں کر چکا ہوں۔ یہ سن کر بھی موصوف کہنے لگے ۔۔ تبلیغ کرنا ہمارا فرض ہے۔۔ اور بار بار ایک ہی بات کہتے رہے۔ ۔ میں نے کہا چلیں میں آپ کے کہنے پر مسلمان ہو رہا ہوں میں کونسے فرقے میں جاؤں۔۔ سنی یا شیعہ۔۔ سنی تو کونسے بریلوی یا دیو بندی۔۔۔ جس پر طویل خاموشی چھا گئی اور اگلے اسٹاپ پر برزگ بس سے اتر گئے۔
میرے نزدیک مذہب انسان کا انفرادری معاملہ ہے۔ ۔ ۔ کوئی اس میں رہے نہ رہے۔ ۔ میں دنیا کا کوئی بھی دھرم اختیار کرلوں میری جان محفوظ رہنے ہی چاہے میں ناستک ( لادین ) رہوں تب بھی میری جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا ۔۔۔ لیکن کیا یہ سہولت کہیں اور بھی ہے۔ ۔
♦