حسن مجتبیٰ
پاکستان کے صوبے سندھ میں ہندو لڑکیوں اور لڑکوں کی تبدیلی مذہب کا معاملہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا پیارا پاکستان۔ بلکہ پاکستان سے بھی ایک صدی قبل کا۔ اگر میں یہ کہوں کہ اگر گھروں سے ہندو لڑکیوں اور ہندو لڑکوں کو مسلمان نہ بھگاتے اور پھر انکا مذہب تبدیل نہیں ہوتا تو شاذ و نادر ہی قیام پاکستان کا کم از کم سندہ میں اتنا امکان روشن ہونا تھا۔ کیونکہ برصغیر جنوبی ایشیا میں سندھ شاید وہ حصہ تھا جہاں ہندو مسلم تضاد اتنا شدت سے نہیں ابھر کر آیا تھا جتنا برصغیر کے دیگر حصوں میں تھا۔ یہ بھی نہیں کہ اپنے گھر اور ماں باپ چھوڑنے والے سارے ہندو لڑکوں اور لڑکیوں کا مذہب زبردستی تبدیل کیا گیا اور یہ بھی نہیں کہ سبھی ہندو لڑکوں اور لڑکیوں نے رضاکارانہ اسلام قبول کیا تھا۔
انگریزوں کے سندھ فتح کرنے سے قبل یہ بھی تالپوروں کی بادشاہت میں ہوا کرتا کہ جب کسی ہندو کی زبان سے لفظ “رسو” یعنی رسی نکل جانے پر بھی اسے مسلمان بنایا جاتا تھا کہ اسے کہا جاتا کہ تم نے لفظ “رسول” کہا ہے اور اب تمہارے مسلمان ہونے کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ لیکن پھر بھی تالپوروں کی دربار میں کئی ہندو عامل انکے معاشی و سیاسی مشیر سفیر و وزیر بنے ہوئے تھے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سندھ کی تاریخ میں تالپوروں کا دور ہندو اقلیت کے لوگوں کے لیے جبر کا دور تھا۔
یہی وجہ ہے کہ چارلس نیپئر نے سندھ پر حملہ کیا تو سندھ پر حملے کا ایک بہانہ انگریزوں کو سندھ سے سیٹھ ناونمل کی طرف سے وہ لکھا ہوا خط بھی تھا جس میں اس نے انگریزوں سے تالپوروں کے ہاتھوں آسکے بڑے کا زبردستی ختنہ کروانے کی فریاد کی تھی۔
شیخ عبدالمجید سندھی اور شیخ عبدالرحیم دو بڑے نام ہیں برصغیر میں انگریزوں کے خلاف جدوجہد کے رہنماوں کے جو دونوں نو مسلم تھے جو ہندو سے مسلمان ہوئے تھے۔ ایک کا تعلق ٹھٹھہ اور دوسرے کا حیدرآباد شہر سے تھا۔ شیخ عبدالرحیم ریشمی رومال تحریک کے بھی اہم رہنما تھے جو افغانستان ہجرت کر گئے تھے۔ یہ پاکستان کے سابق سکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ کے چچا تھے۔
آل انڈیا نیشنل کانگرس کے مرکزی رہنما ٓآچاریہ کر پالانی شیخ عبدالرحیم کے بھائی تھے۔جبکہ یہ عبدالمجید سندھی تھے جنہوں نے شاہنواز بھٹو کو انکے آبائی شہر لاڑکانہ سے زبردست انتخابی شکست دی تھی۔ ان دونوں حضرات کے مذہب اسلام قبول کرنے پر کافی پھڈے فساد کی سی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔
اسی طرح موجودہ لال کشن اڈوانی کی اپنی بہن بھی گھر سے نکل کر مسلمان ہو گئی تھی۔ ممتاز بھٹو کی نگران حکومت میں صوبائی وزیر مظفر صادق بھٹی ایل کے آڈوانی کا بھانجا تھا۔ اور تو اور خود سندھ اور ہند کے سب سے بڑے شاعر شیخ ایاز کی والدہ نے بھی اپنے ہندو والدین کے گھر کو چھوڑ کر شیخ ایاز کے ابا شیخ غلام حسین سے شادی رچائی تھی۔
لیکن پاکستان بننے کے بعد پاکستان کے ہندو یعنی جنکی اکثریت سندھ میں زیادہ تھی کے مصائب میں دن دگنی رات چوگنی اضافہ ہوگیا۔ پاکستانی ہندو کی اپنے ملک سے وفاداری مشکوک دیکھی گئی۔ دونوں ملکوں کے بیچ کشیدگی اور جنگوں کا سب سے زیادہ نزلہ سندھ کے ہندو پر گرا۔ یعنی کہ پاکستان میں برق گرتی ہے تو ہندو کے آشیانے پر۔ اگر اس آشیانے میں چڑیوں کا چنبہ لڑکیاں ہوں۔
جب سے قومی سلامتی کو تڑکا اسلام کا آیا تو پھر ہندو کی اپنی بٹیوں اور بہنوں کے گھروں سے غائب ہونے یا کردیے جانے کے بعد زبردستی یا رضاکارانہ اسلام قبول کرنے پر انصاف کی تگ و دود، احتجاج، رونا دھونا سب خلاف قومی سلامتی اور اسلام دشمنی ٹھہرایا گیا۔ ہندو ماں باپ بہن بھائی دادا دادی نانا نانی چپ چپ چاپ آنسو بہاتے اور پھر راتوں رات (جو کر سکتے تھے) بھارت کا ویزہ لیا اور نقل وطنی کرگئے۔ بھارت میں کئی سندھی ریفیوجی خاندان ہیں جو اس لیے سندہ پاکستان سے بھارت نقل وطنی کرگئے ہیں کہ انکی بچیوں کا مذہب تبدیل کر کر ان سے شادیاں کی گئی تھیں۔ اور اس سبب خاموش نقل وطنی آج تک جاری ہے۔
ان متاثرین خاندانوں میں ہر طبقے اور آمدنی گروپ کے ہندو ہیں۔ ان میں ڈاکٹر لڑکیوں کے والدین بھی ہیں تو تو بڑے کاروباری اور بیوروکریٹ خاندان بھی تو نچلے متوسط طبقے کے خاندان بھی۔
اب صرف ڈہرکی شہر کو ہی دیکھ لیں جہاں اب انتہائی مفلس اور محنتی خاندان کی دو نوجوان بچیاں رینا اور روینا غائب ہوئی ہیں وہاں سے صرف ٓآٹھ میل پر شہر اباوڑو کے مکھی اور دولتمند خاندان کی لڑکی غائب ہوکر مذہب تبدیل کرچکی ہے۔ مکھی خاندان نقل وطنی کر کر بھارت چلا گیا۔
مجھے نہیں معلوم کہ ہر ماہ کتنی سو لڑکیاں اغوا ہوتی ہیں لیکن مجھے غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ فقط تھرپارکر ضلع میں اسوقت تک جبری تبدیلی مذہب کے خوف سے دو سو لڑکیاں خودکشیاں کر چکی ہیں۔
لڑکیوں کو گھروں سے بھگانے والے رومیوز انہیں نوجوان ہندو لڑکیوں کو مسلمان بنانے کے تین مراکز پر لے جاتے ہیں وہ ہیں: بھرچونڈی، امروٹ، اور سامارو کا سر ہندی مدرسہ۔ ان مراکز کے رہنماوں کا ایسے رومیوز کو کہنا ہوتا ہے کہ ایک بار تم بس لڑکی کودرگاہ یا مدرسے میں پہنچا دو باقی کام ہمارا ہے۔ پھر ہزاروں لوگ ہوتے ہیں، ڈنڈا اور کلاشنکوف بردار۔ نعرہ تکبیر اور اسلام زندہ ٓباد کے نعرے ہوتے ہیں اور ان سب کے بیچ ان ڈری سہمی بچیوں کے عدالتوں اور میڈٰیا کے سامنے بیانات کہ وہ اپنی رضا خوشی سے مسلمان ہو گئی ہیں۔
رینا اور روینا کے کیس میں یہ دونوں بچیاں اٹھارہ سال سے کم عمر کی ہیں۔ اور ایسی کئی بچیاں اور بچے تھے۔ جبکہ سندھ میں چھوٹی عمر کے بچوں کی شادیوں کے خلاف سندھ اسمبلی سے منظور کردہ قوانین بھی موجود ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ قبل جب ٹنٖڈو اللہ یار کے مکھیا کا پندرہ سالہ پوتا مسلمان ہوا تھا تو اسکے خلاف سندہ ہائیکورٹ میں درخواست میں فاضل جج نے چائلڈ میریم پریوینشن قانون کا استدلال رد کرتے ہوئے یاد دلایا تھا کہ پیغمبر اسلام کے پاس سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے انکے چچازاد بھائی علی نے بھی تو چودہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا۔ اب اسکو کون سی حکومت یا سپریم کورٹ جھٹلائے گی “۔
یہ ملک مسلمانوں کا ہے۔ ہمیں یہاں انصاف نہیں ملے گا” پانچ سال قبل گھر سے غائب ہوکر تبدیلی مذہب کا بتائی جانیوالی رنکل کماری کے اپنی ماں کو سپریم کورٹ میں الفاظ تھے۔ بعد میں رنکل کو دارالامان میں رکھنے کے بعد بنچ کے سامنے نہیں رجسٹرا رکے سامنے پیش کر کر اسے اس کے شوہر ہونے کے دعویدار کے ساتھ جانے کا حکم دیا گیا تھا۔ رنکل کے والدین بھی بھارت نقل مکانی کرگئے۔
لیکن اسکا ماموں اور سیاسی ذہن راجکمار نے ملک پاکستان میں رہ کر جبری تبدیلی مذہب اور قلیتیوں پر جگر نا انصافیوں کے خلاف ٖڈٹ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ کہتا ہے یہ جبر ہوتا رہے گا جب تک ریاست سیکولر نہ ہوگی۔ تو پھر اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ ہندو لڑکیوں اور کچھ لڑکوں کے بھی گھروں سے غائب ہو نے اور انکے تبدیلی مذہب کی خبریں سنتے رہیں گے!۔
کیا جبری مذہب تبدیلی کئ پیچھے ریاست کا ہاتھ ہے؟ کچھ وثوق سے کہا نہیں جا سکتا لیکن ریاستی اداروں میں موجود مذہبی انتہاپسند اہلکاروں کی ہندو خاندانوں کے خلاف ملزموں سے ہمدردیاں اور تبدیلی مذہب کے مراکز درگاہوں اور مدرسوں کے پیروں اور منتظمین کی فوجی چھاؤنیوں میں متواتر پذیر ائیوں کی تصاویر جن میں جنرل باجوہ کی انکے ساتھ تصاویر کا سوشل میڈیا پر دیکھ کر کہنے والے سمجھ سکتے ہیں کہ ایسے واقعات کے مرکزی کرداروں کی ایسی عزت افزائی انکو اور کتنا بے خوف و بے پرواہ بناتی ہوگی۔
جبکہ سندھ میں چھوٹی عمر میں بچوں کی شادیوں کے خلاف قانون کی موجودگی میں ان دو بچیوں رینا اور روینا کو پنجاب کے شہر خانپور کٹورے پہنچایا گیا جہاں تحریک لبیک کے مدرسے میں ان بچیوں کو “دین کے داٗئرے میں داخل” کرایا گیا۔
♦