جنگ عوام کا مسئلہ ہے۔ امن عوام کی ضرورت ہے۔ جنگ کا پہلا اور آخری شکار بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔ خواہ یہ جنگ کے دوران بہنے ولاخون ہو۔ یا پھر جنگ کے بطن سے جنم لینے والی غربت، بے روزگاری یا بد حالی ہو۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جنگ و امن کے فیصلے کرنا ارباب اختیار کا کام ہے۔ یہ فیصلے عوام نہیں کرتے ۔ ممکن ہے ماضی میں یہ بات درست رہی ہو۔ ماضی میں حکومتوں کی شکل مختلف ہوتی تھی۔ ان کی ہیت ترکیبی کچھ ایسی ہوتی تھی کہ فرد واحد یا پھر مٹھی بھر لوگ جنگ و امن کے فیصلے کرتے تھے۔ بادشاہوں ، راجوں اور مہاراجوں کے زمانے میں عوام کی مرضی معلوم کرنے کا نہ تو کئی مستند طریقہ تھا ، اورنہ ہی اس کی ضرورت محسوس کی جاتی تھی۔
بادشاہتوں اور راجواڑوں میں مجلس شوری یا پھر درباریوں کا یک چھوٹا سا گروہ ہوتا تھا۔ یہ گنے چنے لوگ دربار میں عوام کی نبض شناسی کا دعوی تو ضرور کرتے تھے، مگر عملی طورعموما عوام سے بہت دور رہتے تھے۔ ان سے خاص فاصلہ رکھتے تھے۔ شہر کی حد تک چند مخصوص لوگوں سے ان کا کبھی مکالمہ ہو جاتا تھا۔ مگر ملک کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے لاکھوں لوگوں کا جو عموما دیہاتوں میں رہتے تھے، ان سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہوتاتھا۔ البتہ جنگ کی تباہ کاریوں میں ان لوگوں کو بلواسطہ یا براہ راست ضرور شریک کیا جاتا تھا۔
تباہی کا بڑا حصہ ان ہی لوگوں کے حصے میں آتا تھا۔ ظاہر ہے جنگ لڑنے کے لے ہزاروں پیادے، ہاتھی، گھڑ سوار تیر وتفنگ چلانے والے ہاتھوں کی ضرورت ہوتی تھی ۔ چنانچہ ان لوگوں کو معاشی مجبوری کے تحت، جبرا اورکئی کئی رضا کارانہ طور پر بھی بھرتی کر لیا جاتاتھا۔ بسا اوقات ان میں سے کئی ایک اگر لڑنے سے نہ سہی، بھوک و بیماری سے مر جاتے تھے،۔ جنگ کے جو میدان سجتے تھے ، ان میں قطح نظر اس بات کے کہ کون جیتا، کون ہارا؟ ہزاروں لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے، یا معذور ہو جاتے۔ کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ فوجوں کے آمنے سامنے ہونے کے بعد گفت و شنید کے ذریعے معاملہ حل کر لیا جاتا۔ لہذا آج کے دور کی طرح گفت و شنید کے زریعے مسائل کا حل ابھی اتنا مروج نہیں تھا۔
ہمارے زمانے تک صورت حال بدل گئی ہے۔ ہم جمہوری زمانے کے لوگ ہیں۔ یہ عوام کا دور ہے، عوامی دربار کا زمانہ ہے۔ ہمارے زمانے میں حکمران کوئی کام بھی عوام کی مرضی کے بغیر کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ جہاں جہاں جمہوریتیں ہیں ، وہاں حکمرانوں کو وقفے وقفے سے عوام کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔ عوام کے دربار میں میں پیش ہونے سے سے پہلے بھی جواب دہی کے کئی مرحلے ہیں۔ آزاد میڈیا ہے، بے رحم نقاد ہیں۔ پارلیمنٹ جیسے فورم ہیں ، جہاں سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔ ہر چیز کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ غلط پالیسیوں کی وجہ سے حکمران عوام کی نظر میں اپنی مقبولیت اور اعتبار کھو دیتے ہیں۔ اس لیے ہمارے زمانے میں جنگ و امن عوام کا مسئلہ ہے ۔ عوام جنگ یا امن کے سوال پر فیصلہ کن رائے رکھتے ہیں۔ اس رائے کا احترام یا اسے نظر انداز کرنے کا آخری نتیجہ جا کر انتخابات میں ظاہر ہوتا ہے۔ جہاں عوام اپنی پسند یا نا پسندیدگی کا کھل کر اظہار کر سکتے ہیں۔
ایک مثالی جمہوریت میں ایسا ہی ہوتا ہے، یا ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مگر بد قسمتی سے اب بھی کئی کئی حکمران طبقات عوام کی رائے سازی پر ناجائز طریقے سے اثر اندوز ہوتے ہیں۔ ان کو غلط اطلاعات یا اپنی مرضی کی اطلاعات دے کر کسی جنگ کے لیے ان سے سے رضامندی لے لیتے ہیں۔ ہمارے دور میں عوام اور میڈیا کی اس طاقت کو حکمران چلاکی اور عیاری سے اپنی سوچ کے مطابق استعمال کر تے رہتے ہیں۔ اور عوام کو واقعات کی ایک جھوٹی تصویر دیکھاکر کسی بھی مہم جوئی میں ان کی وقتی رضامندی حاصل کر لیتے ہیں۔ چنانچہ جہاں کئی جنگ کی بات چل رہی ہو، وہاں عوام ، میڈیا اور دانشور کو احتیاط سے کام لینا چاہیے کہ کئی وہ جنگ بازحکمرانوں کے بچھائے ہوئے کسی جال میں تو نہیں پھنس رہے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ حکمران جنگ کیوں چھیڑتے ہیں؟ اپنے اپنے وقت کے مطابق اس کی کئی ایک وجوہات ہوتی ہیں۔ ان میں پہلی اور عام وجہ کسی حکمران کی اپنی مقبولیت اور طاقت میں اضافے کی خواہش ہو سکتی ہے۔ دوسری عموی اور بڑی وجہ کسی متنازعے علاقے یا وسائل پر قبضے کی خواہش بھی ہو سکتی ہے۔ ان کے علاوہ حالات کے مطابق کئی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں۔
پاکستان و بھارت کی حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت میں بظاہرمودی سرکار اور دوسرے ہندو قوم پرستوں کے پاس یہ دونوں وجوہات ہیں۔ ایک طرف انتخابات سر پر ہیں، جن میں ان کو شکست کا اندیشہ ہے اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔
اس مقصد کے لے مودی سرکار اور کچھ شدت پسندوں نے ہندو قوم پرستی کے جذبات کو ہوا دی ۔ کچھ میڈیا کے لوگ یا ہندو شدت پسند لوگ اس قسم کے روئیے کا اظہارکر رہے تھے ، جیسے قدیم زمانے میں وحشی اور آدم خور قبائل اپنے نئے پکڑے ہوئے شکار کو زبح کرنے سے پہلے نیم برہنہ ہو کر چیخ و پکار کرتے اور جشن منایا کرتے تھے۔
جنگ کا جنون یا جنگ کا خوف حکمرانوں اور عوام کی نفسیات میں بڑی تبدیلی لاتا ہے۔ جنگ صرف فوجوں میں ہی نہیں عوام میں بھی ایک مشترکہ دشمن اور مشترکہ خطرے کے خلاف ایک طرح کا اتحاد پیدا کر لیتی ہے۔ اس طرح ایک خاص قسم کا ماحول پیدا ہوتا ہے، جس میں عوام نتائج سے بے خبر ہو کر آگ میں کودنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔
پہلی جنگ عظیم کے شروع میں پورے یورپ میں لوگ جنگ کے لیے اس طرح پر جوش تھے ، جیسے زندگی کی عظیم تفریح پر جا رہے ہوں۔ انگلینڈ اور فرانس میں لوگوں کا جوش اور جنگی جنون میں مبتلا ایک جم غفیر ہوتا تھا جو ہر روز دارلحکومتوں میں جمع ہوتا تھا۔ ایسا کرتے وقت ان مناظر کا ان کے زہنوں میں کوئی تصور بھی نہ تھا، جو جنگ کے دوران ان کو دیکھنے نصیب ہوئے۔
غربت و بے روزگاری اور مایوسی کے مارے ہوئے لوگ جنگ میں زندگی کا مقصد، زندہ ہونے کا احساس یا پھر عزت نفس ڈھونڈتے تھے۔ کہ شائد وہ کسی بڑے مقصد میں کام آسکتے ہیں۔ ایسے عوامی جذبات سے حکمران طبقات فائدہ اٹھا سکتے تھے، اور کئی ایک نے یہ فائدہ اٹھایا۔
بسا اوقات خود غرض، چا لاک یا جنگ باز حکمران اپنے مفاد کے لیے کوئی لڑائی شروع کر سکتے ہیں۔ ان کو عوام کی زیادہ پرواہ نہیں ہوتی ۔ دوسرا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جنگ جیت کر وہ عوام کے دل جیت سکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع کرنے میں اس طرح کے فاشسٹ اور آمریت پسند لوگ بھی شامل تھے۔ مگر حالات و واقعات نے کچھ ایسا رخ اختیار کیا کہ اس جنگ میں آخری فتح عوام کی ہوئی۔ اس جنگ کے نتیجے میں کئی آمریتوں کا خاتمہ ہوا۔ اور اس سے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پوری دنیا میں جمہوری تحریکوں کا آغاز ہوا۔ اور عوام کی زندگی میں تبدیلی آئی۔
اس جنگ میں کھائے ہوئے زخموں اور اس جنگ میں اٹھائے ہوئے نقصانات نے عوام کو سبق دیا کہ جنگ و امن کے مسائل کو رجعتی اور جنگ باز حکمرانوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس سوچ سے عوام کی جمہوریت اور حکومتی معاملات میں شمولیت کے لیے راہ کھل گئی۔ پاک بھارت کشیدگی کے دوران بھارت میں بڑے پیمانے پر جنگ مخالف لوگوں کا سامنے آنا اس کی تازہ مثال ہے۔ اس جنگ مخالف مہم میں کچھ ایسی سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں ، جو آنے والے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ جنگ باز قوتوں نے ان پر ملک دشمنی یا غیر محب وطنی کے روایتی ہتھیار آزما نے کی کوشش کی، مگر ان کو اس میں کامیابی نہ ہو سکی۔ عوام کو اس بات کا پوراشعورہے کہ شدت پسند اور جنگ باز قوتیں اقتدار کیخاطر ملک کو اور عوام کوجنگ کی بھٹی میں جھونکنے سے بھی گریز نہیں کریں گی۔
♦