پاکستان کے امن پسند جنگ کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ احتجاج بالکل ہونا چاہیے ۔ جنگ مسئلوں کا حل نہیں ہے ۔معاملات مذاکرت کے ذریعے حل ہونے چاہیں ۔ لیکن امن پسند اس وقت احتجاج نہیں کرتے جب پاکستانی فورسز اپنے ہی شہریوں پر بمباری کرتی ہیں ان کی آبادیاں اور گھر تہس نہس کر دیتی ہے۔ کیا اپنے ہی شہریوں سے مذاکرات نہیں ہوسکتے؟ ان پر بمباری ضروری ہے؟
پاکستان کی معاشی حالت اتنی پتلی ہے کہ پاکستان جنگ کے قابل ہی نہیں ایک دن کی جنگ ہی پاکستانی عوام کو غریب سے غریب تر کر دے گی۔ پاک فوج صرف اور صرف اپنے جہادی لشکروں کی سرگرمیوں کے ذریعے اپنا وجود قائم کررکھے ہوئے ہے۔ جہادی لشکروں پر کوئی سرمایہ کاری کی ضرورت نہیں وہ خود ہی اپنے جہاد جوگے پیسے مذہب کے نام پر بٹور لیتے ہیں اور پھر جو جوان شہید ہوجاتا ہے وہ سیدھاجنت میں جاتا ہے اس کے لواحقین کو سرکاری خزانے سے ادائیگی بھی نہیں کرنی پڑتی۔ وہ تو اپنے بیٹے کو جنت بھیج کر ہی خوش ہوجاتے ہیں۔
امن پسند جنگ کے خلاف مظاہرہ ضرور کریں لیکن جن عناصر کی وجہ سے جنگ کے بادل منڈلاتےہیں ان کے خلاف مظاہرہ ہونا چاہیے ۔ جب تک پاکستان کے امن پسند شکر طیبہ ، جیش محمد، حزب المجاہدین، لشکر جھنگوی اینڈ کمپنی کے خلاف نہیں اٹھیں گے یہ خطہ کبھی پرامن نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے ایک دن کا احتجاج کافی نہیں ۔ ضروری ہے کہ امن پسند جنگی جنون اور جہادی لشکروں کے خلاف مسلسل احتجاج کرتے رہیں۔ ہر سال دفاعی بجٹ میں کئی گنا اضافہ کیا جاتا ہے لہذا یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ امن پسند اس کے خلاف احتجاج کریں، دفاعی اخراجات میں اضافے کی بجائے کمی کا مطالبہ کریں۔
بائیں بازو کے دوست پاک بھارت جنگی جنون کو طبقاتی جنگ سے بھی جوڑتے ہیں کچھ کا خیال ہے کہ سرمایہ دارانہ ممالک امن قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہیں کیونکہ وہ جنگ کی آڑ میں اپنا اسلحہ بیچتے ہیں
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے سرمایہ دار پچھلے کئی سالوں سے تجارت کے لیے کوشاں ہیں۔ دونوں طرف سیاسی حکومتیں تجارت کے لیے کئی معاہدے کرتی ہیں۔ ویزا کو نرم کرنے کے معاہدے ہوتے ہیں کہ اچانک آزاد کشمیر میں موجود جہادی تنظیموں کے ارکان سرحد پار کچھ آتش بازی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور سب کچھ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔
کوئی چھ سال پہلے ایک دوست کامریڈ کلب علی شیخ کہنے لگے کہ آپ لوگ پاک بھارت تجارت کی بات کرتےہیں کبھی آپ نے تاجروں کا موقف بھی لیا ہے؟ کیا پاکستانی سرمایہ دار بھارت سے تجارت بھی کرنا چاہتا ہے کہ نہیں ۔ہم نے کہا بات آپ کی درست ہے۔پھر ہم کچھ دوست لاہور چیمبر آف کامرس کے صدر اور نائب صدر سے ملے ان سے پاک بھارت تجارت پر گفتگو ہوئی تو کہنے لگے لاہور چیمبر آف کامرس میں پاک بھارت تجارت سے متعلق خصوصی کمیٹی بنی ہوئی ہے اور ہم تو چاہتے ہیں کہ تجارت ہو مگر ملکی حالات اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم نے لاہور چیمبر کے صدر سے کہا کہ ہم پاک بھارت تجارت کے موضوع پر ایک سیمینار کرنا چاہتے ہیں آپ براہ مہربانی وہاں اپنے خیالات کااظہار کر دیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ یہ سیمینار کہاں کرنا چاہتےہیں ہم نے کہا کسی ہوٹل میں کریں گے۔۔ انہوں نے کہا اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ آپ لاہور چیمبر آف کامرس کے ہال کو استعمال کریں، پبلسٹی بھی ہم کریں گے، آپ کو چائے پانی بھی پلائیں گے اور آپ اپنے ماہرین لے آئیں اور لاہور کے تاجر بھی یہاں گفتگو کریں گے ۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ کوئی اس مسئلے پر بات کرے۔ یہ جو پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ بھارت پاکستان کی صنعت کو تباہ کردے گا یہ بالکل غلط تاثر ہے۔ پاکستان کی صنعت کو تو چین کی سستی اور غیر معیاری اشیا تباہ کر رہی ہیں۔
پھر جن ملکوں نے اسلحہ بیچنا ہے جن میں امریکہ اور مغربی ممالک ہیں وہ پچھلی کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں کوامن سے رہنے کا کہتےہیں۔ امریکہ اور یورپ نے کئی دفعہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے ذریعے افغانستان، بھارت اور پاکستان کے درمیان ٹریڈ کرنے کے لیے آمادہ کیا ۔بھارتی سرمایہ کار کو اپنی مصنوعات کے لیے نہ صرف پاکستان بلکہ واہگہ کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا کی منڈیوں کی ضرورت ہے۔ ۲۰۱۱ میں امریکہ نے اپنی سرپرستی میں پاکستان ، انڈیا اور افغانستان کے درمیان سہ فریقی تجارتی معاہدہ بھی کرایا۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا۔ ایران سے بارٹر سسٹم پر تجارت شروع کی۔ لیکن ان معاہدوں کی سیاہی ابھی خشک بھی نہیں ہوتی کہ اچانک کشمیر میں موجود جہادی تنظیموں کے ارکان کی سرحد پار آتش بازی شروع ہو جاتی ہے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے وزیر اعظم نواز شریف سے دو طرفہ تعلقات کی بھرپور کوشش کی۔ وہ تو دونوں ملکوں کے درمیان ٹینشن ختم کرنے کے کے لیے اس حد تک گئے کہ نواز شریف کی سالگرہ پر ذاتی طور پر تشریف لائے۔ لیکن اس کا جواب پاکستانی ریاست نے پہلے پٹھان کوٹ ائر بیس اور پھر اڑی سیکٹر پر حملہ کرکے دیا۔یاد رہے کہ جب بیس سال پہلے وزیراعظم نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم واجپائی کے ساتھ مل کر بس ڈپلومیسی کے ذریعے تعلقات بنانے کی کوشش کی تو پاکستانی فورسز نے کارگل پر حملہ کردیا۔
انڈیا اور افغانستان نے پاکستان کے جہادی رویے سے تنگ آکر ایران کے راستے سے چاہ بہار سی پورٹ تعمیر کی ہے اور اس کے ذریعے اپنی تجارت شروع بھی کر لی ہے۔ اب ان تین ملکوں کو کیپٹلسٹ قوتوں نے کاروبار کرنے سے کیوں نہیں روکا،کیوں نہیں انہیں اپنا اسلحہ بیچا۔
محمد شعیب عادل