علی احمد جان
الف لیلیٰ یاہزار داستان ایک کہانی ہے جس میں ایک حسینہ ہر رات ایک نئی داستان سنا کر اپنی جان ایک ظالم بادشاہ کے عتاب سے ایک ہزار راتوں تک بچائے رکھتی ہے ۔ نہ الف لیلیٰ کی اپنی کہانی کی صداقت کی کوئی سند ہے اور نہ اس میں سنائی جانے والی کہانیاں مصدقہ ہیں مگر صدیوں تک ہر ملک میں یہ کہانی اور اس میں سنائی جانے ولی داستانیں مختلف انداز میں سننے والوں کا دل بہلاتی رہی ہیں۔
لگتا ہے کی ہماری تاریخ بھی الف لیلیٰ کا ہی تسلسل ہے۔ ہر دور میں ایک نئی کہانی ایک نئی داستان۔ تقسیم ہند سے قبل کی کہانیاں جس میں افسانوی کردار ایک نئی مملکت کے قیام کے لئے جدوجہد کی نئی داستان رقم کرتے نظر آتے ہیں۔ آج گریجویٹ ممبران اسمبلی کو بھی انگریزی میں تقریر سمجھ میں نہ آنے کی شکایت ہے مگر بیسویں صدی میں قائد اعظم محمد علی جناح کی انگریزی میں کی گئی تقریروں سے مسلمانوں کے خون میں گرمی پیدا کرتی رہی ہے۔
آج شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے اشعار ستاؤن فیصد پڑھے لکھے لوگوں میں ایک آدھ شائد ہی سمجھ پاتے ہوں مگر جب خواندگی کی شرح پورے معاشرے میں نہ ہونے کے برابر تھی تب ہر ایک کویہ اشعار ایسے سمجھ میں آتے تھے کہ نیل کے ساحل سے تا بخاک کاشغر سب مسلمان ایک قوم بن گئے تھے۔
نہ صرف تقسیم ہند کے دوران کی تباہی و بربادی ، قتل و غارت اور عصمت دری کی المناک کہانیاں منٹو کے افسانوں میں کہیں دفن ہوکر رہ گئیں بلکہ ایثار و قربانی کی کی لازوال کہانیوں نے تو اس دوران مہاجرین کے جائداد کے کلیم کے نام پر ہونے والی ہونے والی برصغیر کی تاریخ کی سب سے بڑی بد عنوانیوں کو بھی تحصیلوں اور پٹوار خانوں کے کاغذات کے نیچے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر رکھا ہے۔
ہٰذا من فضل ربّی کی تختی لگے بہت سارے گھروں کے مالک ان کے موجودہ مکینوں کے بجائے کوئی رام لال یا کرم سنگھ ہی ملے گا مگر ان گھروں میں موجود ُ قائد کے ساتھی‘ یا تحریک پاکستان کی کہانی کےکردار’دیرینہ کارکن‘ مکینوں کے سامنے دم مارنے کی جرات کس کو ہو سکتی تھی۔ ’پرچم ‘ لگے بہت سارے گھروں کے مالک ان کے موجودہ مکینوں کے بجائے کوئی رام لال یا کرم سنگھ ہی ملے گا۔
آزادی کے بعد ہمارا سفر جمہوریت کےروشن راستے سے جدا ہوکر آمریت کی تاریک راہوں پر جاری رہا تو ں کہانیوں کے ذریعے اجالا کرنے کی کوشش بھی الف لیلیٰ کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔ ۱۹۶۵ ء کی جنگ میں سبز پوشاک میں ملبوس سفید اونٹوں پر سوار مخلوق کے لاہور شہر کا دفاع کا زمینی حقائق سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا معاشی ترقی کی کہانیوں کا اس دور میں ملک کے طول و عرض میں پائی جانے والی غربت اور صحت اور تعلیم کی ناپید سہولتوں سے۔
ایک طرف ایوبی دور کے معاشی و اقتصادی اصلاحات کی داستان تراشی جاری تھی دوسری طرف ملک کی اکثریت کو اقلیت سے شکایات کی کہانیاں تھیں جو کبھی منظر عام پر نہ آسکیں۔ شکایت کرنے والا مردود کہلایا اور آواز اٹھانے والا مرتد۔ ملک کے مشرقی حصے کے جدا ہوتے وقت جنم لینے والی المناک کہانیوں کو ایوان صدر میں براجمان ایک عیاش حکمران کی خواب گاہ میں پنپنے والے رنگین افسانوں میں ایسے چھپا دیا گیا کہ ہمیں آج تک بنگلہ دیش کی اصل بانی جنرل رانی ہی نظر آتی ہیں جن کی انکھوں کی مستی میں ڈوب کر یحیٰ خان جنگ ہار گئے تھے۔
ایسی کہانیاں تو ہم بھٹو دور کے تھانہ چلو یا لاڑکانہ چلو کی بھی سنتے رہے۔ گورنر ہاؤس پنجاب کی داستانوں کا ذکر تو کتابوں میں بھی آیا ۔ جنرل ضیا ء کی آمریت کےگیارہ سالوں میں تفریح طبع کا سامان ہی بھٹو دور کی رنگین کہانیاں تھیں جن کو سنانے والے ہزار رنگوں میں سناتے رہے اور سننے والے بھی ہر رنگ کے مزے لیتے رہے۔ اگر ان کہانیوں کو سچ مان لیا جائے تو ملک میں اس وقت دو کام ہوئے ہیں ایک نکاحوں پر نکاح ہوتے رہے ہیں یا پھرپانی کی جگہ بھی شراب پی جاتی رہی ہے۔
کہانیوں کا ایک دور بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی آیا جس میں وزیر اعظم ہاؤس کے گھوڑے سیب کے مربے کھاتے تھے اوروزیر اعظم کا ایک ایک نیکلس کروڑوں ڈالر میں خریدے گئے تھے۔ داستان تراشوں نے اس بار کہانی کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے کرداروں کو پکڑ کر تفتیش بھی کرلی اور مقدمہ بھی چلا مگر الف لیلیٰ کی کی کوئی کہانی آج تک حقیقت نہ بن سکی البتہ سننے والوں کا وقت اچھا بیتا دیتی ہے۔
نواز شریف کی فیکٹری سے بھارتی جاسوسوں کی ایک پور ی کھیپ دریافت ہونے اور کروڑوں ڈالر ہندوستان بھیجنے کی ہوشربا داستان سے قبل بھی الف لیلیٰ کی کہانی سامنے آگئی تھی جس میں کسی گلوکارہ سے ان کا عشق اور اس عشق میں ملک کے کروڑوں کا نقصان ہوچکا ہے۔
ان کہانیوں میں وزیر اعظم ہاؤس میں کبھی گھوڑے اور کبھی بھینسیں عیاشی کرتی رہتی ہیں۔ ان کہانیوں میں ہمیشہ منتخب ہونے والے وزرائے اعظم کرپٹ، نااہل، بد دیانت اور ان کا دور ملک کی تاریخ کا بد ترین دور ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم سے پہلے ایک نیک صدر ان وزرائے اعظم پر باضابطہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے ان پر لگائے تاریخ کے الزامات پڑھ کر سنا یا کرتا تھا آج کل یہ زمہ داری آزاد میڈیا اور عدلیہ کی ہے۔
ان دنوں کی کہانی قومی دولت لوٹنے اور باہر لے جانے کی ہے ۔دولت بھی ہزاروں، لاکھوں یا کروڑوںمیں نہیں ہر بار اربوں کی بات ہوتی ہے وہ بھی سینکڑوں ارب کی اور کبھی کبھار ہزاروں ارب کی چوری کی باتیں بھی ایسے ہوتی ہیں جیسے کسی نافرمان بیٹے نے اپنے باپ کے بٹوئے یا دوکان کے کاؤنٹر سے چند ہزار روپے نکال لئے ہوں۔
سننے والے بھی ارب کے ہندسے سے اتنے ہی نابلد ہوتے ہیں کہ نہیں جانتے کہ ایک ایک روپے کے سکوں میں اگر ایک ارب روپے بغیر وقفے کے گن لئے جائیں تو سو سے زیادہ سال لگتے ہیں۔ سو کے نوٹوں میں ایک آدمی اپنی سو سال کی زندگی میں بھی ایک ارب گن نہیں سکتا شائد ہزار اور پانچ ہزار کے نوٹوں میں ایسا ممکن ہو۔ ہندوستان کی ایسی ہی انقلابی حکومت نے ہزار اور پانچ سو کے نوٹ ہی بند کردئے تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری ، ان کی دانست مین جب نوٹ ہی نہیں ہونگے تو چوری کیسے ہوگی۔
ایک محکمہ پولیس کا نابغہ آفیسر جس پر ایک وزیر اعظم کے بھائی کو اسی کی حکومت کے دوران ہی سر عام دن دھاڑے قتل کرنے کا الزام بھی تھا جو بعد میں انسداد جرائم کے واحد ڈاکٹر کے طور پر ہر مرض کے علاج کا ماہر سمجھا جاتا رہا ہے کو جب ٹیکسوں کے لئے محتسب مقرر کر یا گیاتو انھوں نے بھی ایک ایسی نوید سنادی کہ ملک میں روزانہ ہونے والی سینکڑوں اربوں روپے کی کرپشن روک دی جائے تو شائد نئے نوٹ چھاپنے کی بھی ضرورت نہ رہے۔ ۔
نئی انقلابی حکومت کے بر سر اقتدارنے کے بعد بنکوں میں جعلی کھاتوں کے زریعے اربوں روپے کی غیر قانونی ترسیلات کی کہانیاں ایسے پیش کی جاتی رہیں کہ سننے والوں نے نہیں بھی نہیں سوچا کہ اتنے سارے ارب روپے ملک سے باہر جاتے رہے ہیں تو پھر یہاں نظام کیسے چلایا جاتا تھا ۔ کوئی تعجب نہیں ہوگا اگرآخر میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہونے والی زرمبادلہ کی کہانی کی طرح جعلی اکاؤنٹ یا جعلی کھاتوں کا افسانہ بھی الف لیلیٰ کا ہی ایک قصہ ثابت ہو۔
یہ کہانیاں اس لئے جنم لیتی ہیں کہ ہم ان کو نہ صرف سننا چاہتے ہیں بلکہ ان کے سچ ہونے پر بھی ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔ جس دن ہم کہانیوں کے بجائے حقیقت کی تلاش شروع کریں گے یہ کہانیاں بھی خود بخود ہی ختم ہو جائیں گی۔
♦