شہزاد عرفان
انسان اور گدھا رنگیلا مرحوم کی ایک شاندار مزاحیہ فلم تھی۔ پرانی فلم تھی ظاہر ہے نئی نسل نے اسے نہ دیکھا اور نہ ہی ان کے پاس اتنا وقت ہے۔ مگر جب عمران خان نے پہلی مرتبہ ایک سٹیج پر کھڑے ہوکر عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اپنے مخالفین کو “اوئے کھوتے” کہا تو مرحوم رنگیلا کی انسان اور گدھا فلم کی یاد آگئی ۔
پھر کچھ دنوں بعد عوام کو کھوتوں کی فارمنگ کرکے پیسے کمانے اور امیر آدمی بننے کا مشورہ دیتے ہوئے پائے گئے۔۔۔۔ ساتھ میں کھوتوں کی ایکسپورٹ پر بھی زور دیا ۔۔
یہ انہی دنوں کی بات ہے جب اچانک لاہور میں جگہ جگہ کھوتے کا گوشت بکتے اور کھاتے دیکھا گیا جس پر حکومت نے انتظامیہ سے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فوراََ ان قصائیوں کے خلاف ایکشن لینے کا حکم دیا جو عوام کو سستے بھاؤ گدھے کا تازہ گوشت کھلا رہے تھے۔
سوشل میڈیا کا دور ہے سیاست حکومت خوارک تجارت معیشت غرض ہر جگہ ” کھوتے” کا زکر جب لب عام ہوا تو عوام سے پھر رہا نہ گیا اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ ڈونکی کنگ کے پوسٹر اور نعرے گونجنے لگے پھر اسی دور حکومت میں مہنگائی سے تنگ آکر غریب عوام عمران خان کے فلسفہ حیات کفایت شعاری، دو روٹیوں کی جگہ ایک روٹی پر گزارہ کے اصول پر چلتے ہوئے چنگچی رکشہ چلانے والوں نے انجن کی جگہ کھوتے کو دے دی۔
یوں سن 2019 کے ترقی یافتہ دور کے ایٹمی طاقتور ملک نے انجن کی جگہ واپس جانوروں کے استعمال پر ترجیح دی جس سے غریب چنچی مالکان کی مہنگے دام پیٹرول اور کرپٹ ٹریفک پولیس کی روز روز کی رشوت سے اور امیر آدمی کی شور دھوئیں کی آلودگی سےجان چھٹی۔
وزیراعظم کو چین کے بین الاقوامی دورے پر تقریر فرماتے دیکھا تو ڈرتے رہے کہ یہ ابھی کہیں چین کو پاکستان سے گدھوں کی ایکسپورٹ کا مشورہ نہ دے ڈالیں مگر شکر ہے کہ انہوں نے اسکی جگہ ان ایک ملین درختوں کو پانچ ملین اشجار سے بدل دیا جو پاکستان میں بمشکل پچھلے سال لگائے تھے اس کی خیر ہے اتنا چل جاتا ہے اب بھلا کون جاکر درختوں کی گنتی کرتا ہے کہ چند ہزار تھے ایک ملین تھے یا چین جانے کے بعد وہ پانچ ملین اچانک کیسے ہوگئے۔
اب لوگ ڈر گئے ہیں اپنی قومی جگ ہنسائی سے کہ جس دن سے جرمنی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں ایک دوسرے کو تہس نہس کرکے تباہ کیا اور جو جیتا اسنے دوسرے ملک کی سرحد کو کھینچ کر اپنی سرحدوں سے آپس میں ملا کر دنیا کا ڄغرافیہ بدل دیا ہے۔۔۔۔۔۔ تو سئیں اب ڈر لگتا ہے ہر کسی کو اپنی قومی عزت پیاری ہوتی ہیں۔
اس پر رنگیلا مرحوم کی فلم “انسان اور گدھا” کے ڈائلاگ اور کہانی یاد آجاتی ہے جہاں وہ گدھوں سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کاش انسان کتابیں پڑھ کر عقلمند نا بنتا اور گدھا ہی رہتا تو کتنا اچھا تھا کہ نہ بم پھٹے نہ ٹینک چلتے نہ خون کی ندیاں بہتیں نہ بچے یتیم ہوتے نہ عورتیں بیوہ ہوتیں۔
اس فلم کی کامیابی کے بعد کسی نے ان سے سوال کیا کہ آپ کو اس اچھوتے موضوع پر فلم کرنے کا خیال کیسے آیا تو انہوں نہایت سنجیدگی سے بتایا کہ بطور مزاحیہ فنکار کئی فلموں میں گدھوں کے ساتھ فلم بندی ہوئی اور پردے پر جب بھی گدھے کا سین آتا عوام بہت ہنستے اور داد دیتے۔ ایک دو فلموں میں میں نے گدھے کی آوازیں اور شکل بنائی جسے عوام نے بہت پسند کیا بس تب سے یہ خیال آیا کہ انسان گدھوں پر اپنا بوجھ ڈھوتا ہے اور بدلے میں ظلم بھی کرتا ہے کیوں نہ ان پر ایک مزاحیہ فلم بنائی جائے جس میں مزاح کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا سبق بھی موجود ہو“۔
رنگیلا مرحوم کی بات اور یوٹیوب پر “انسان اور گدھا” کا ٹریلر دیکھ کر لگتا ہے کہ “کھوتا یا کھوتے” عمران خان کا وہی نسٹلجیا ہے۔
♦