انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات کا انعقاد بدھ سترہ اپریل کو ہو رہا ہے۔ صدارتی انتخابات کی مہم میں کئی دوسرے معاملات کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔
انڈونیشیا کے موجودہ صدر جوکو ویدودو کو صدارتی انتخابات میں سابق فوجی جنرل پرابووو سوبیانتو کے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔ انتخابی مہم میں امیدواروں نے مذہب اسلام پر بہت زیادہ توجہ مرکوز رکھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سن 1998 میں جمہوریت متعارف کرانے کے بعد پہلی مرتبہ انتخابی مہم کے دوران ایسا محسوس ہوا کہ اسلام کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔
خاص طور پر موجودہ صدر پر ان کے قریب ترین حریف سوبیانتو نے کھلے عام لوگوں کے سامنے قرآن مناسب انداز میں نہ پڑھ سکنے تک کے الزامات عائد کیے ہیں۔ اس کے جواب میں صدر ویدودو کی انتخابی ٹیم اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش میں یہ کہتی رہی کہ ویدودو نے بچپن میں ابتدائی تعلیم ایک اسلامی اسکول میں حاصل کی تھی اور اس باعث وہ قران پڑھ سکتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں انڈونیشیا کے مرکزی سیاسی دھارے میں واضح تبدیلی دیکھی گئی ہے۔ اس تناظر میں جرمنی کے ایک تھنک ٹینک گلوبل اسلام کی محقق سوزانے شرؤئٹر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انڈونیشی سیاست میں مذہبِ اسلام کی اہمیت کو کم کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے اور موجودہ انتخابی عمل میں سبھی امیدواروں نے اس کا استعمال کثرت سے کیا ہے۔ شرؤئٹر کے مطابق انڈونیشیا میں اسلام کی سیاست میں موجودگی قدیمی ہے اور یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آزادی کی مسلح جد وجہد میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
انڈونیشی سیاست میں اسلام کے اثرات کی واضح نشانات سن 2017 میں جکارتہ انتظامی علاقے کے چینی نسل کے غیر مسلم گورنر اہوک کے دور میں دیکھے گئے۔ اُن پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران قرآن کے حوالے سے غیر مناسب کلمات ادا کیے تھے۔ اس الزام کے بعد جکارتہ کے گورنر کو بنیاد پرست مسلمانوں کے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ مئی سن 2017 میں ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کر کے عدالتی کارروائی شروع کی گئی۔ استغاثہ نے عدالتی کارروائی کے دوران توہین مذہب کے الزام کو ثابت کر دیا اور ملکی عدالت نے اہوک کو اکیس ماہ کے لیے جیل بھیج دیا۔
ویدودو اپنی انتخابی مہم کے دوران ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرح ہولوگرام ٹیکنالوجی کا استعمالجاری رکھے ہوئے ہیں۔ سترہ اپریل کو ہونے والے انتخابات میں 192ملین رجسٹرڈ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان میں پانچ ملین نئے نوجوان ووٹرز بھی شامل ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق صدر ویدودو کو اپنے حریف امیدوار پر برتری حاصل ہے۔
سترہ اپریل کو پہلی مرتبہ صدر، نائب صدر اور پارلیمنٹ کے انتخابات ایک ساتھ ہوں گے۔ جوکو ویدودو کے نائب صدرارت کے لیے امیدوارمعروف امین ہیں۔ امین انڈونیشی علماء کونسل کے چیئرمین بھی ہیں۔ انتخابی عمل میں شریک نو سیاسی جماعتوں نے جوکو ویدودو اور چار سیاسی پارٹیوں نے سوبیانتو کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
DW