حبیب شیخ
پندرہ سال کی عمر میں میں اپنی بہن کے گھر چند دنوں کے لئے لائلپور گيا ۔ان کے گھر ميں ایک شخصیت کا اضافہ پایا جس کا نام میاں مٹھوتھا۔
کیا کمال کے میاں مٹھو تھے ! چہرہ نورانی اور زبان سیاسی۔ہر ایک دو گھنٹے کے بعد وہ اونچی آواز ميں حکم دیتے۔
” میاں مٹھو نے چوری کھانی کھانی ہے۔“
دن میں کئی مرتبہ حق ہو کہہ کر ذکر الٰہی کرتے ۔ سیاستدانوں کی طرح اوٹ پٹانگ بھی بولتے رہتے۔
مجھے پرندوں کے مطالعہ اورمشاہدہ کاشوق تھا ، میں بڑے اشتیاق اورغور سے ان کی حرکات و سکنات کا تجزیہ کرتا اور ان کی باتوں سے کچھ مطلب اخذ کرنے کی کوشش کرتا ۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ یہ کوئی عام میاں مٹھو نہيں تھے ، گو کہ وقتی طور پر ان کی پرواز ميں کوتاہی آ گئی تھی لیکن ایک دن ان کی اڑان شاہین کی پرواز سے کم نہ ہو گی۔
اور کچھ ایسا ہی ہوا ۔ کئی سالوں بعد پتہ چلا کہ میاں مٹھو اب سندھ ميں پیر عبدالحق عرف میاں مٹھو کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں اور ان کے ہزاروں انسان مرید ہيں جو ان کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے یا کسی اور کی جان لینے کے لئے تیار ہيں ۔ سیاست کے میدان میں اترے تو ووٹ لے کر پارلیمنٹ کے رکن بن گئے۔
مذہب کے معاملہ ميں بھی میاں مٹھو نے کسی کو پیچھےنہيں چھوڑا ۔ پہلے تو انہوں نے ہندو بچیوں کو زبردستی مسلمان کیا اور ان کی شادیاں بھی کروا دیں ۔ پھر اس کے بعد انہوں نے اغواشدہ عیسائی اور ہندو کم سن لڑکوں کو جبراً مسلمان بنانا شروع کر دیا ۔پیرمیاں مٹھو کی کرامات کا یہ عالم ہے کہ وہ عوام النّاس کے بنائے ہوئے قوانين سے بالاتر ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں ان کا طوطی بولتا ہے۔
اگر میاں مٹھو کے ارتقا کا سفر اسی طرح جاری رہا تو سندھ ميں اقلیت نام کی کوئی شے باقی نہيں رہے گی ۔پھر وہ شاہین سے بھی بلند پرواز کر کے شاید کسی ملک کے صدر یا وزیراعظم بن جائيں گے یا اس کرہ ارض پر سب کو جبراً مسلمان بنا دیں گے۔اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درميان جنگیں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائيں گی ۔ اگر لڑیں گے تو مسلمان ہی آپس میں لڑیں گے اور ہنود ، یہود یا نصاریٰ پر اس جنگ و جدل کا الزام نہيں لگےگا۔
♦