جنرل غفور کی پی ٹی ایم کو دھمکیاں


عدنان حسین شالیزئی

آئین اور قانون کی رو سے پاک فوج وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ، وزیر دفاع اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے ۔ پی ٹی ایم کے خلاف کوئی بھی اقدام اٹھانے سے پہلے پاک فوج ہزار بار سوچے گی ۔ اس وقت ملک معاشی طور پر تباہی کے دھانے پر ہے ۔ جلد یا بدیر ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے ۔ موجودیت حکومت نے ایک سال میں 32 کھرب قرضہ لے کر سارے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ۔ ملک گرے لسٹ میں ہے ۔ عرصہ بعد بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جائے گا ۔

ملک کو کوئی بھی طبقہ موجودہ حکومت اور پاک فوج کے اکہتر سال کے غیر آئینی و غیر قانونی کردار سے مطمئن نہیں ہے ۔ امریکہ نے پاکستان پر ویزا کی پابندی لگا دی ہے ۔ امریکہ کے ساتھ مزید کشمکش کی صورت حال پاکستان پر معاشی پابندیوں پر منتج ہو سکتی ہے ۔ پاکستان کے اندر آئے روز کے افسوسناک واقعات پر اقوام متحدہ ، السامی حقوق کی عالمی تنظیموں اور فلاحی ریاستوں کی نظر ہے ۔ ریاست کے کسی بھی ادارے کی طرف سے کسی بھی مسلک ، طبقے یا قوم کے خلاف کاروائی ریاست کے اپنے نقصان پر ختم ہوگی ۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے پی ٹی ایم پر لگائے الزامات ، دھمکیوں اور کاروائی کرنے کے اعلان پر پی ٹی ایم کےارکان نے سوشل میڈیا پر ان کے جھوٹے الزامات کے نام سے اور زندہ باد کے نام سے ٹرینڈ چلایا ۔ انہوں نے ڈی جی آصف غفور کی پریس کانفرنس کو آئین و قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ۔ اکثر نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ حکومتی پالیسی بیان کرنا حکومت کا کام ہے نہ کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کا ۔ ایک ساتھی نے تو یہاں تک لکھ دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر وزارت صحت ، وزارت تعلیم ، وزارت خارجہ ، وزارت دفاع اور وزارت داخلہ کے امور سرانجام دینے کے ساتھ پارٹ بہ طور ڈی جی آئی ایس پی آر کام بھی کرتے ہیں ۔

چونکہ ملک کے چاروں صوبوں میں ریاستی مظالم کے خلاف رائے عامہ بنی ہوئی ہے ۔ سرائیکی ، سندھی ، پشتون ، ہزارہ ، کشمیری اور گلگت کے باسی مزید معاشی اور معاشرتی مسائل میں نہیں رہ سکتے ۔ ہر گھر ، خاندان ، مسلک ، طبقہ اور قوم ریاست کی منفی پالیسیوں سے پریشان ہے ۔ گمشدہ کیے گئے افراد ، امریکہ کی ایماء پر لڑی گئ انسداد دہشتگردی کی نہ ختم ہونے والی جنگ ، سیکیورٹائزیشن ، ریاست کی طرف سے سپانسر کی گئ دہشتگرد تنظیموں کی منظم دہشتگردی اور آئے روز بوری بند لاشوں کا جلد از جلد خاتمہ چاہتے ہیں ۔ دوسری صورت میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنے عروج پر پہنچ کر سب کچھ تیس نہس کردے گا ۔

ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں بھی حکومت کے خاتمے اور پاک فوج کی میڈیا ، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت پر سخت خفا ہیں ۔ پیپلز پارٹی ، جمعیت علماء اسلام ، پاکستان مسلم لیگ ن ، اے این پی ، پشتونخوا میپ اور بی این پی موجودہ حکومت اور پاک فوج کے منفی کردار پر مزید خاموشی کو سیاسی نقصان اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔

سیاسی دانشوروں کے بہ قول ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں کی خاموشی ان کی وطن دوستی ، عوام دوستی اور آئین کی بالادستی کے موقف کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیں گے ۔ اسی حوالے سے بلاول بھٹو نے اپوزیشن اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں کے پارلیمنٹ سے استعفیٰ کے آپشن پر عمل کا عندیہ دے دیا ہے ۔

پی ٹی ایم کے ساتھی قانون کے عین مطابق سماجی و سیاسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔ ملک کی تمام جمہوری سیاسی قوتیں پی ٹی ایم کے ساتھ ہیں ۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں اور پینتیس ممالک میں پی ٹی ایم کی تنظیم کی موجودیت میں پاک فوج کی کاروائی ان کیلئے مزید نقصانات کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔

Comments are closed.