کوئٹہ میں ایک بار پھر ہزارہ شیعہ کمیونٹی پر حملہ ہوا جس میں بیس افراد ہلاک اور چالیس زخمی ہیں۔ لشکر جھنگوی کے ترجمان قاری سیف اللہ نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سوشل میڈیا پر بھرپور احتجاج ہورہا ہے لیکن قومی دھارے کا میڈیا اور صحافی خاموش ہیں۔ خیال تھا کہ میرے ہر دلعزیز طلعت حسین اس سانحے پر بات کریں گے لیکن وہ بھی کنی کترا گئے ہیں۔ نجم سیٹھی نیب کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ جیسنڈا آرڈن کو چاہنے والے مذہبی انتہا پسندوں کو سانپ سونگھ گیا ہے صرف محمد حنیف ہی ہیں جنھوں نے کھل کر اس دہشت گردی پر لکھا ہے۔
پنجابی قوم پرستوں نے جلیانوالہ باغ کے واقعے میں پناہ لے لی ہے اور انگریز پر لعن طعن کر رہے ہیں اور اس سے معافی مانگنے کا مطالبہ کر رہےہیں۔کیونکہ انہیں پتہ ہے کہ انگریز نے انہیں کچھ نہیں کہنا ۔ اور ریاست بھی مطمئن رہتی ہے ۔جبکہ یہی لوگ پاک فوج سے کبھی یہ مطالبہ نہیں کر یں گے کہ اول تو وہ بنگالیوں سے اپنی زیادتیوں کی معافی مانگیں جس نے بنگالیوں کا قتل عام اور خواتین کا ریپ کیا۔اور یہ سلسلہ ابھی تک رکا نہیں اور اب اس کا نشانہ بلوچ، پختون ، سندھی اور ہزارہ کے جوان ہیں۔ اپنے ہی ملک میں جاری جلیانوالہ پر بولتے نہیں۔
یہ ایک انتہائی افسوسناک واقعہ ہے جس کی ذمہ داری پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر عائد ہوتی ہے۔سیکیورٹی فورسز یا انٹیلی جینس ایجنسیوں کا کام ملک کے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا ہوتا ہے مگرپاکستانی ریاست اور اس کے ادارے اپنے ہی شہریوں کی حفاظت میں ناکام ہو گئے ہیں اور جب ریاست اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہوجائے تو پھر اس کے قائم رہنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔
محمدحنیف نے ہزارہ کمیونٹی پر ہونے والے حملوں سے متعلق اپنی ڈائری میں سے کچھ یاداشتوں کا ذکر کیا ہے۔ ایک میں لکھا ہے کہ حملہ آور موٹر سائیکل پر تھے، ہم نے پیچھا کیا تو وہ کینٹ کی طرف بھاگے اور کینٹ کے گیٹ سے اندر چلے گئے۔ کینٹ والوں نے ہمیں روک لیا۔ ہم نے اپنا سپیشل برانچ کا کارڈ دکھایا اور بتایا کہ حملہ آور اندر گئے ہیں انھوں نے کہا، اب تو تم نے کہہ دیا، آئندہ یہ بات کبھی نہ کرنا اور بھاگ جاؤ پھر تمھاری شکل کبھی نظر نہیں آنی چاہیے۔
حکومتی سیاستدان جب متاثرین سے تعزیت کے لیے گئے تو مظاہرین نے نعرے لگائے کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے۔ہزارہ ترجمان نےان کو بتایا کہ ہمیں نہ کوئی مذہب کی وجہ سے قتل کر رہا ہے اور نہ فرقہ واریت کی وجہ سے، بلکہ ہم پاکستانی فوج کی دفاعی اکانومی کا نشانہ بن رہے ہیں۔ جب حکومتی سیاستدان شرمندہ ہو کر واپس گئے تو پھر ڈپٹی کمشنر آگئے اور روایتی بیان شروع کردیا اور انھیں بھی شرمندہ واپس جانا پڑا ۔ ہزارہ کمیونٹی کا ایک ہی جواب ہے کہ آپ سب لوگ بے اختیار ہیں۔
یہ پہلی دفعہ ہے کہ ہزارہ کمیونٹی نے برملا اس بات کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاک فوج کی دفاعی اکانومی کا لقمہ بن رہے ہیں۔ہزارہ کی منظم نسل کشی ہورہی ہے اور یہ سلسلہ تقریباً بیس سالوں سے جاری ہے۔اور سب جانتے ہیں کہ ہزارہ برادری کی نسل کشی کے پیچھے لشکرِ جھنگوی ہے۔ اور اس کی سرپرستی پاکستان کے ریاستی ادارے کرتے ہیں۔
اس دفعہ بھی ہزارہ لوگ چند دن احتجاج کریں گے پھر تھک ہار کر اپنے گھروں کو چلے جائیں گے ۔سال چھ ماہ بعد کوئی نیا حملہ ہوجائےگا۔جب تک پاکستانی ریاستی ادارے اپنی جہادی اور جنگی جنون پر مبنی پالیسیاں ترک نہیں کریں گے قتل عام اورجبری اغوا کا سلسلہ جاری رہے گا۔
اس سلسلے کوروکنے کے لیے ضروری ہے کہ ریاستی ادارے ملک کے اندر دہشت گرد تنظیمیں جنہیں ہم عسکریت پسند کہتے ہیں کو ختم کرے، اپنے دفاعی اخراجات ختم کرےاپنا سائز کم کرے اور بیرکوں میں بیٹھے۔ جب تک پاک فوج سیاست کرے گی یہ قتل عام جاری رہے گا۔