علی احمد جان
ایک سیاست دان کا دوسرے سیاست دان کو گالی دینا، الزام لگانا یا دشنام دینا اتنا ہی غلط ہوسکتا ہے جتنا ایک مہذب معاشرے کے دیگر افراد کا ایسا کرنا ۔ مگر کسی جمہوری ملک کے وزیر اعظم کا کسی طنز کو دنیا کی آدھی آبادی کی جنس سے منسوب کرنا جن کا ووٹ اس کو اقتدار تک پہنچانے میں بھی شامل ہو شاید نئی بدعت ہے جو ٹرمپ، مودی کے بعد اب عمران خان سے شروع ہوئی ہے۔
بات عمران خان کے بار بار زبان پھسل جانے کی ہو تو اس کو انفرادی نفسیاتی مسئلہ یا یا پرسنالٹی ڈس آرڈر سمجھ کر بھلا دیا جا سکتا ہے مگر دفاع میں ایک دم سے جو سماجی رابطے کی فوج سامنے آتی ہے تواس سے معلوم ہو تا ہے کہ اب یہ ایک اجتماعی قومی نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ کوئی ان پڑھ ، جاہل کہلانے والے نا خواندہ لوگ بھی نہیں ہوتے بلکہ پڑھے لکھے ، اردو اور انگریزی زبان میں مہارت رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے بادی النظر میں دنیا دیکھی بھالی بھی ہوتی ہے۔
سن۱۹۹۲ ء میں عمران خان کی جب ولڈ کپ میں جیتنے کے بعد مستقبل کے کسی کردار کے لئے تراش خراش ہورہی تھی تو ایک روپ یہ بھی تھا کہ یہ وہ واحد جوان مرد ہے جس پرمغرب کی حسینائیں فدا ہوتی ہیں اور یہ مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانیوں کے بدلے ان سے گن گن کر لے رہا ہے۔ عمران خان کے ساتھ مغربی خواتین کے تعلقات کو باہمی رضامندی کے تعلق سے زیادہ ان خواتین کی مجبوری اور عمران خان کی جوان مردی اور ولڈ کپ کی طرح فتح کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
ان دنوں میں بھی گلگت شہر کے چنار باغ میں واقع بیچلر آفسیرز ہاسٹل میں رہتا تھا جو اب وزیر اعلیٰ کا سکریٹریٹ ہے اور عمران خان بھی اس سے ملحقہ وی آئی پی ریسٹ میں مقیم ہوتے تھے جہاں اب وزیر اعلیٰ کا دفتر ہے۔ چونکہ خاکسار کو کبھی کرکٹ سے دلچسپی نہیں رہی لہذا میں کبھی عمران خان یا کسی اور کرکٹر سے بھی کبھی متاثر بھی نہیں ہوا۔ کبھی کبھار چہل قدمی کرتے ملاقات ہو جایا کرتی تھی یا چنار باغ کے کونے کی کینٹین پر جہاں اب ریویریا ہوٹل ہے جو عمران خان کی سفارش پر ملنے والے آر ڈی ایف سی کے قرضے سے بنا۔ میں نے ان کو ہمیشہ مختلف النسل خواتین کے ساتھ ہی دیکھا اور باقاعدگی سے دریائے گلگت کے کنارے وقت بے وقت نماز پڑھتے بھی دیکھا۔
جب ان کا شوکت خانم کے ہسپتال کا منصوبہ شروع ہوا تو خواتین نے نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ان میں نہ صرف پاکستان کی کالجوں، یونیورسٹیوں میں پڑھنے والی نوجوان لڑکیاں اور مختلف پیشوں سے وابستہ عورتیں اورگھریلو خواتین شامل رہیں بلکہ ہندوستان سے ریکھا اور انگلستان کی شہزادی ڈیانا تک سب نے اپنا کردار ادا کیا۔ اس دوران بھی عمران صنفی تفاؤت کے باوجود خواتین کے اس کردار کو سراہنے کے بجائے راجہ اندرہی بنا رہا اور پوری قوم نے اس روپ کو بھی سراہا۔
عمران خان کی پہلی شادی سے قبل بھی ان کے سکینڈل کئی حسیناؤں کے ساتھ سامنے آتے رہے ان میں سے ہم صرف سیتا وائیٹ کو ان کی بچی کی ولدیت کے لئے امریکی عدالت میں دائر کئے جانےوالےمقدمےاور زینت امان کو ان کی بالی وڈ میں فلمی شہرت کی وجہ سے جانتے ہیں ۔ عمران خان کا یہ بھی طرہ امتیاز ہے کہ ان کے ہر سکینڈل اور آفئیر کو پاکستانی عوام نے بطور مردانگی دیکھا کبھی ان پر انگلی نہیں اٹھائی۔ آج بھی کوئی ان سے اس کے کسی تعلق کے بارے میں سوال کرتا ہے تو وہ اس کو اپنا ذاتی مسئلہ قرار دے کر شٹ اپ کا ل دیتے ہیں۔
ان کی پہلی بیوی نے عمر میں ان سے بہت چھوٹی ہونے کے باوجود ان کے ساتھ باوقار طریقے سے نبھایا۔ ان کو گھر بنا کر دیا ، بچے پیدا کئے ، طلاق کے باوجود ان کی تعلیم و تربیت اور کفالت کی ذمہ داری نبھائی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نیک خاتون نے ان کی اس بچی کی کفالت اور تعلیم و تربیت کی زمہ داری بھی احسن طریقے سے نبھائی جس کو کھلے عام قبول کرنے سے وہ خود ابھی تک گریزاں ہے ۔ مگر دوسری طرف ہمارے ہاں لوگوں کے ایک طبقے نے اس خاتون کی اپنے ملک، وطن اور مذہب تک چھوڑدینے کو ایک صہیونی سازش قرار دیا یا پھر ایک یہودی لڑکی کے ساتھ شادی ، اس سے بچوں کی پیدائش اور انکی کفالت سمیت اس کے دولت کے تصرف کو ایک اور طبقے نے اپنے ہیرو کی دشمن پر فتح سے تعبیر کیا۔
ریحام خان کے ساتھ عمران کی شادی اور طلاق میں بھی ملک کی اکثریت نے عمران خان کی حمایت کی۔ ریحام خان نے ان واقعات کو ایک کتاب میں قلمبند کرکے توجہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کی جو عمران خان کی شخصیت کا خاصہ ہیں جن کی وجہ سے ان کی شادی نہیں چل پائی تھی۔ طلاق کے بعد ایک مطلقہ بیوی کی جانب سے ایسی باتوں میں الزامات بھی ہوسکتے ہیں ، حسد بھی ہوسکتی ہے مگر کچھ باتیں متواتر ایسی بیان کی گئی ہیں جو ان کے ساتھ شروع سے جڑی ہوئی تھیں۔
ان باتوں میں ان کا خواتین کو کمتر درجے پررکھنا اور اپنی انا کو سب چیزوں پر اولیت دینا وغیرہ جن پر غور کرنے کے بجائے اس عورت کوہی معتوب کیا گیا جس پر یہ سب بیت گئی تھی۔
عمران خان کی موجودہ شادی بھی ایک فلمی کہانی کی طرح ہے جس میں ایک عورت نے اپنے شوہر، بچوں اور گھر سے کسی قسم کی شکایت نہ ہونے کے باوجود چھوڑ دیا اور ان کا ہاتھ اس لئےپکڑا کہ ان کی دانست میں ایسا کرنے سے ہی وہ منصب اقتدار پر فائز ہوسکتے تھے۔ اس عمر کی کسی خاتون کا پرائے مرد کے لئے بغیر کسی جذباتی وابستگی کے ایسا کرنے کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس خاتون کے شوہر کا اپنے ہیرو کے لئے اپنی بچوں کی ماں کاایسا کرنے کو قربانی تصور کرنا بھی فقید المثال ہے۔
عجیب قسمت کا دھنی شخص ہے جس کو زندگی کے ہر موڑ پر ایسی خواتین ملیں جنھوں نے ان کو اگلی منزل تک پہنچایا۔ کسی نے اپنے حسن سے، کسی نے دولت سے کسی نے شہرت سے ان کا ساتھ دیا مگر وہ آج بھی خواتین کو برابری کی سطح پر دیکھنے سے قاصر ہے تو اس میں اس کے ساتھ ہم سب بھی شائد برابر کے شریک اس لئے ہیں کہ ہم بھی ان کےہر فلرٹ، ہر رومانس، عورتوں سے متعلق ہر کہانی کو کسی فلمی ہیرو کی طرح ان کا کارنامہ قرار دیتے رہے ہیں۔
اگر ہمارے پدر شاہی معاشرے میں مردوں کی طرف سے خواتین کے ایسے توہین کو معمول سمجھ کر درگزر کر دیا جاتا ہے تو کم از کم عورتوں کو ہی ایسے کلمات پر احتجاج کرنا چاہیئے ورنہ کہیں عورتوں کا یہ کم درجہ سرکاری طورپر مسلمہ حیثیت ہی نہ بن جائے کیونکہ اب وہ صرف ایک کرکٹر ہی نہیں بلکہ اس ملک کا وزیر اعظم بھی ہے جس کے انتخاب میں مردوں سے زیادہ عورتوں کا حصہ ہے۔
♦