ڈاکٹر غزالہ قاضی
آسٹریلیا کے شہر ملبورن میں ۲۰۱۷ میں منعقد ہوئی اسلامی کانفرنس کے دعوت نامے میں خواتین شرکا جن کی تعداد تین ہے کے چہروں کی جگہ سیاہی پھیر کے انہیں بے چہرہ دکھایا گیاہے۔ ان کے ناموں کے ساتھ سسٹر یعنی بہن لکھا ہوا ہے مگر مرد شرکا کے ناموں کے ساتھ بھائی نہیں لکھا گیا تھا۔
خواتین شرکا کو بے چہرہ دکھانے کا کیا مقصد ہے؟ اور ان کے ناموں کے ساتھ بہن لکھنے کا کیا جواز ہے؟ کیا عورت کی رشتوں کے علاوہ اپنی جداگانہ حیثیت نہیں ہے؟ مغرب میں شخصی آزادی کو بہت اہمیت دی جاتی ہے منہ چھپانے کے سوال کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ عورت کی مرضی ہے وہ اپنا چہرہ دکھائے یا چھپائے۔ لہذا اس دلیل کے بعد مزید بات کرنے کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے۔
میرا تجسس اس دلیل پر ختم نہیں ہوا لہذا میں نے ان خواتین کے ناموں کو انٹرنیٹ پر سرچ کیا تو وہ تینوں آسانی سے اپنی تصاویر سمیت مل گئیں۔ تینوں کی اپنی ویب سائٹ اور فیس بک پیج ہیں اور وہ اپنے پروفیشن میں مشہور ہیں۔ ان میں سے دو ، مونیق ٹوہی اور نینا عازم ، اپنے چہروں کو چھپا کر نہیں رکھتیں ۔ ایک تو حجاب بھی واجبی سا لیتی ہے ۔ تیسری خاتون جس کا نام ام جمال الدین ہے چہرے پر نقاب لیتی ہے مگر آنکھیں نہیں چھپاتی۔ ان خواتین کے چہروں اور آنکھوں والی تصاویر ، ان کی ویب سائٹ اور فیس بک پیج پر دیکھ کر یہ بات واضح ہوگئی کہ ان کے چہروں کی تصویروں میں سیاہی پھیرنے کا کام اسلامی کانفرنس کے متنظمین نے اپنے طور پر کیا تھا۔
اس پر کافی لوگوں نے اعتراض بھی کیا تھا جس کے جواب میں یہ کہا گیا کہ خواتین شرکا کے چہروں کی تصویریں اس لیے نہیں دکھائی گئیں کہ انہیں اس کانفرنس میں شرکت کی وجہ سے آسٹریلیا کے دائیں بازو کے لوگ تنگ نہ کریں ۔ مونیق ٹوہی نے احتجاج کے طور پر کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا تھا۔ اس کے خیال میں اس کے چہرے کی تصویر کو اس وجہ سے چھپایا گیا ہے کہ منتظمین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ عورت کو پبلک میں اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہیے۔
ایک زمانے میں پاکستانی معاشرے میں لڑکی کی پیدائش پر مبارک باد دینا معیوب سمجھاجاتا تھا ۔ بہت دفعہ اس کی پیدائش کا لوکل کمیٹی میں اندراج نہیں کیا جاتا تھا۔ پاکستان کی پہلی مردم شماری میں ایسے واقعات بھی سامنے آئے تھے کہ گھر کی عورتوں کی تعداد کو کم کرکے بتایا گیا تھا۔ ایک زمانے میں لڑکیوں کو ان کے اصل ناموں کے ساتھ تحریروں اور خطوں میں نہیں لکھا جاتا تھا۔ اور ان کو عفیفہ یا بی بی کے القاب سے لکھا جاتا تھا۔ آج تک بعض لوگ عورت کی قبر کے کتبے پر اس کا نام نہیں لکھتے بلکہ اس مرد کا نام لکھتے ہیں جس سے اس کی زندگی کی نسبت رہی ہو۔ مثلاً زوجہ فلاں یا دختر فلاں۔ اس کے شوہر کے مرنے کے بعد اسے بیوہ فلاں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ ان سب باتوں سے یہ باور کروایا جاتا ہے کہ عورت کی اس معاشرے میں اپنی جداگانہ حیثیت نہیں ہے۔
سن ۸۰ کی دہائی میں میں نے پاکستان میں ڈاکٹر کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ وہاں میرے ساتھ ایک مڈوائف کام کرتی تھی ۔ ایک روز کہنے لگی کہ اس کی بیٹی کے ہاں ساتویں بیٹی پیدا ہو کر مرگئی ہے ۔ میں نے افسوس کے اظہار کے لیے اس کی طرف دیکھا تو مجھے اس کے چہرے پر افسوس کی بجائے طمانیت اور خوشی کے تاثرات نظر آئے۔ وہ کہنے لگی کہ بہت سے گھروں میں لڑکیوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ لڑکے کی خواہش میں فیملی پلاننگ نہیں کی جاتی۔ پھر اس نے بتایا کہ کبھی کبھار گائوںکی بوڑھی عورتیں نومولود لڑکیوں کو مار دیتی ہیں کہ نومولود کو مارنا بہت آسان ہے۔ ایک تکیہ اس کے منہ پر رکھنے سے یہ کام ہو جاتا ہے۔یہ کہتے وقت اس کی آنکھوں میں عجیب طرح کی چمک تھی۔
ام جمال الدین سڈنی آسٹریلیا میں رہتی ہے۔ اس کے فیس بک پیج سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اسلام کے فروغ کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اس کی کچھ پوسٹس پڑھ کر معلوم ہوا کہ اس کے نقاب پہننے کے باوجود اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس کی آنکھیں کیوں نظر آرہی ہیں۔ وہ یہ سن کر بہت ناراض ہوتی ہے اور پوچھتی ہے کہ مسلمان بہنوں نے کبھی کسی مسلمان مبلغ پر اس طرح کا اعتراض نہیں کیا کہ ان کی داڑھی چھوٹی ہے یا بڑی تو مسلمان مرد مسلمان عورت کو مزید آپ کو چھپانے کا کیوں کہتے ہیں۔
آنکھیں چھپانے والی بات نئی نہیں ہے۔ ٹوپی والے برقعے کے پیچھے یہی فلسفہ ہے کہ عورت کی آنکھیں بھی نظر نہ آئیں۔ کئی سال پہلے میں نے امریکہ میں چھپنے والے اردو کے ایک اخبار میں ایک خاتون کا لکھا کالم پڑھا جس میں اس نے عورت کو یہ ہدایات دی تھیں کہ وہ عبایا پہن کر اپنی ایک آنکھ ڈھانپ کر باہر نکلیںا ور اپنی آواز غیر مرد کو نہ سننے دیں۔جو لوگ عورت کی آنکھوں کو مکمل طور پر ڈھانپنےکے درپے ہیں وہ کیا چاہتے ہیں؟ کیا وہ عورت کواندھوں کی طرح رکھنا چاہتے ہیں ؟ کیا وہ چاہتے ہیں کہ عورت گھر میں ہی نظر بند رہے اور جب باہر نکلے تو اندھوں والی لاٹھی یا رستہ دکھانے والا تربیت یافتہ کتا ساتھ لے کر نکلے؟ وہ عورت کو معذور، مجبور اورلاچار بنا کر کس قسم کا معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں؟
ان ساری باتوں کے پیچھے یہ فلسفہ کارفرما ہے کہ عورت صرف ایک جنسی شے ہے۔ اس کے سر کے بالوں ، منہ ، ٹخنوں اور بازووں کے نظر آنے سے مرد کے اندر شہوت پیدا ہوتی ہے اور معاشرے میں فحاشی پھیلانے کی ذمہ دار ہے۔ اس کے علاوہ وہ معاشرے کے باقی جرائم میں بھی کسی نہ کسی طرح حصے دار ہے۔ ایک آزا دعورت نام نہاد صالح معاشرے کے قیام کے لیے خطرہ ہے لہذا اس کی منفرد حیثیت کو ختم کرکے رکھنا ہوگا ۔ اس بات کو اسلام اور عورت کے عزت و احترام کا نام دے دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس پر اعتراض کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے آسٹریلیا کی ام جمال الدین نے نقاب اوڑھ لیا ہے اور اپنے بیٹے کی نسبت سے پکاری جاتی ہیں۔
اس کے باوجود اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ سب کافی نہیں ہے۔ اسے ایک قدم اور بڑھ کر اپنی آنکھیں بھی چھپانا ہوں گی۔ اگر وہ آنکھیں بھی چھپا لے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اسے منظر عام سے مکمل طور پر غائب کرکے ہی مطمئن ہو ں گے۔ اسی وجہ سے جب عورتیں ٹوپی والا برقعہ پہن کر گھر سے نکلتی ہے تو اس کے ننگے ٹخنوں پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ جب کبھی عورتوں ، بچوں اور جانوروں پر جنسی مظالم ہوتے ہیں تو بہت سے لوگ ان عورتوں پر الزام لگاتے ہیں جو سر اور منہ کو چھپا کر نہیں رکھتیں اور معاشرے میں فحاشی پھیلاتی ہیں۔
عورت کو نہ صرف معاشرے کے جرائم کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ خاندان کی عزت اور غیرت کا پاسدار بھی ہے۔ اس کے کسی بھی غلط اقدام سے اس کے خاندان کی ناک کٹ جاتی ہے۔ یہ غلط قدم اپنی مرضی کی شادی بھی ہو سکتی ہے کئی دفعہ تو چاقو سے اس کی ناک کاٹ کر خاندان کی ناک اونچی کی جاتی ہے اور بہت دفعہ اسے قتل کرکے خاندان کی عزت بحال کی جاتی ہے۔
کچھ سال پہلے اخبا رمیں یہ خبر چھپی کہ ایک عورت اپنی مرضی کی شادی کی تصدیق کرکے عدالت سےباہر نکلی تو اس کے خاندان کے افراد نے ہی پولیس کے سامنے اسے اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ مرضی کی شادی تو دور کی بات ہے۔ پانچ لڑکیوں کو گانا گانے اورتالیاں بجانے کے جرم میں مار دیا گیا اور افضل کوہستانی جیسے دلیر ، صادق اور امین مہربان شخص کو اس کی گواہی دینے پر شہید کر دیا گیا۔اسے پاکستانی ریاست نے تحفظ فراہم نہیں کیا۔ بارش میں خوشی سے ڈانس کرتی بچی کو بھی اس جرم میں قتل کی سزا ملی۔
غیرت کے نام پرعورت کے قتل اور اس پر ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والے پر اعتراض کیے جاتے ہیں اور اس پر فتوے لگائے جاتے ہیں کہ قرآن کی آیات اور احادیث کی تفسیریں اپنی مرضی سے کرکے ان سب باتوں کو اسلام کا نام دے دیا گیا ہے۔
اسلام کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ساتویں صدی کی عورت پر ایسی پابندیاں نہیں تھیں جو آج کی عورت پر لگائے جانے پر زور دیا جاتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے جنگ جمل میں اونٹنی پر بیٹھ کر جنگ میں حصہ لیا اور بہت سے جید مرد صحابہ کی قیادت کی۔ بعد کے کچھ مسلمان تاریخ دانوں نے یہ کہنا شروع کر دیاکہ حضرت عائشہ نے بعد میں توبہ کر لی تھی اور پھر سیاست میں حصہ نہیں لیا تھا جو کہ تاریخی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ مسلمان حکمرانوں کے غلط فیصلوں پر تنقید کرتی رہی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی وفات اس زمانے کے مدینہ کے گورنر ، مروان کے قاتلانہ حملے کی وجہ سے ہوئی کہ وہ اس پر بہت تنقید کرتی تھیں۔ (تاریخ اسلام۔ اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد اول ، اشاعت نومبر ۲۰۰۳صفحہ ۵۹۲)۔
ساتویں صدی کی عورت معاشرے کی فعال رکن ہوتی تھی۔ کاروبار سے لے کر جنگوں تک میں شرکت کرتی تھی۔ جنگوں میں زخمیوں کو پانی پلانے اور دوائیاں دینے کے علاوہ براہ راست جنگ میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ خولہ بنت الازوار کی جنگوں میں تلوار سے لڑنے کی تعریف رسول کریم نے خود کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ جنگیں انھوں نے منہ اور آنکھیں ڈھانپ کر نہیں لڑی تھیں۔
ملبورن کی کانفرنس کے منتظمین جب خواتین شرکا کی تصویروں کے چہروں پر سیاہی پھیرتے ہیں اور ان کے نام کے ساتھ بہن لکھتے ہیں تو وہ عورت کی شخصی آزادی اور اس کی مرضی کو عزت نہیں دے رہے ہوتے۔ وہ اس بات سے مسلمان عورت کو یہ پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ جس قسم کا معاشرہ تشکیل کرنا چاہتے ہیں اس میں عورت کو بے چہرہ اور بلا شناخت رہنا ہوگا۔ جب مسلمان عورت کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ اس کی آواز بھی سنی نہ جائے تو دراصل اسے یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ان کے بنائے معاشرہ میں وہ بے آواز ہوگی۔
ایک نقاب اوڑھنے والی کو جب آنکھیں مکمل طور پر ڈھانپنے کو کہا جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ تم منظر عام سے غائب کو کر گھر میں نظر بند ہوجائو۔ ایسے حالات میں لڑکی کی پیدائش پر مبارک دینا واقعی بہت بڑی زیادتی ہے۔ ایسے معاشروں میں اگر کوئی بوڑھی عورت کسی نومولود لڑکی کو مار دیتی ہے تو اس کی آنکھوں کی خوشی کی چمک اور چہرے کی طمانیت اس کی زندگی کے تجربات کی ترجمانی کر رہے ہوتے ہیں ۔ کہ اس معاشرے میں جہاں عورت کا چہرہ جسم اور آواز کو فتنہ سمجھا جائے جہاں اسے تالیاں بجانے اور گانا گانے پر قتل کی سزا ملے اور پھر اس کے قتل کی گواہی دینے والے کو ریاست تحفظ نہ دے۔ جہاں اسے اپنے جسم پر بھی اختیار نہ ہو، اس معاشرے میں اس کا زندہ رہنا زیادہ بڑا ظلم ہے۔
♦