بیرسٹر حمید باشانی
بھارتیہ جنتا پارٹی کا انتخانی منشور آگیا ہے۔ اس منشورمیں بھارت میں ہر ایک کے لیے کچھ نہ کچھ ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے خوش خبریاں اور امیدیں ہیں۔ کچھ لوگوں کے لیے فکر و اندیشوں کا سامان ہے۔ کچھ لوگ مستقبل میں مذہب کے نام پر سیاست ہوتی دیکھ کر خوش ہیں، اور جشن بنا رہے ہیں۔ کچھ لوگ مذہب کے سیاست میں استعمال کی پالیسی پر ناراض ہیں۔
ڈاکٹر امبیدکر جیسے نامور اقلیتی لیڈرکے لکھے ہوئے آئین کے باوجود اقلیتیں خوف زدہ ہیں۔ نہرو گاندھی کے ملک میں مذہبی بنیادوں پر خوف و ہراس کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ انتخابی منشور میں مودی نے کشمیر کے ساتھ موجودہ آئینی رشتہ تبدیل کرنے کا علان کیا ہے۔ دفعہ پینتیس اے ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کشمیر کے حوالے سے یہ ایک تہلکہ خیز اعلان ہے، مگر نیا نہیں ہے۔
وزیر اعظم مودی نے کسی وضاحت کا تردد کیے بغیر آئین میں اس تبدیلی کی بات کی۔ مگر اس کے کچھ حامی فکری گرو، اور دانشور اس انتخانی نقطے کی حمایت میں آئینی اور فکری دلائل پیش کر رہے ہیں۔
دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ بھارتی آئین کی بنیادی حقوق سے متعلق دفعات کے تحت تمام بھارتی شہریوں کو جو بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ ان حقوق میں سب شہریوں کے مساوی حقوق اور ان کے ساتھ مساوی سلوک بھی شامل ہے۔ جبکہ آئین کا دفعہ 35 اے کشمیرمیں ملازمتوں اور زمین کی ملکیت کے باب میں کشمیری باشندوں کو خصوصی حقوق و مراعات دیتا ہے۔ اس دفعہ کے تحت کوئی غیر کشمیری مقبوضہ ریاست جموں کشمیر میں سرکاری ملازمت نہیں کر سکتا، اور نہ ہی غیر منقولہ جائداد کا مالک بن سکتا ہے۔
اس لیے اس آئینی دفعہ کے تحت بھارتی شہریوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو رہاہے۔ اسی قانون کے تحت کوئی غیر کشمیری کشمیری عورت سے شادی کر کہ یہاں کے سٹیٹ سبجیکٹ یعنی مستقل باشندہ نہیں بن سکتا، جو کہ کشمیری عورت کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ یہ بظاہر ایک درست اور مضبوط دلیل لگتی ہے، مگر ایسا صرف تب لگتاہے، جب اس کو تاریخی اور آئینی حقائق سے الگ کر کہ دیکھا جائے، یعنی سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جائے۔ تاریخی حقائق کی روشنی میں دیکھنے سے اس سوال کا تناظر اور زاویہ ہی بدل جاتا ہے، اور اس سے وہ نتائج نکالنا مشکل ہو جاتا ہے، جو ہندو بنیاد پرست نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔چنانچہ اس مسئلے کو تاریخی پس منظر میں رکھ کر دیکھے بغیر اس بحث کو سمجھنا اور مودی کی دلیل میں جو نقص ہے اس کو سامنے لانا ممکن نہیں ہے۔
تقسیم ہندوستان سے پہلے ریاست جموں کشمیر ایک پرنسلی سٹیٹ یعنی شاہی ریاست تھی۔ ریاست کے باشندے ریاست جموں کشمیر کی رعایا تھے، تاج برطانیہ کی رعایا نہیں تھے۔ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دھائی میں کشمیر ی پنڈتوں نے کشمیر میں سرکاری ملازمتوں اور زمین کی حق ملکیت پر قانون سازی کی مہم شروع کی۔
اس مہم کے زیر اثر اس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے سال 1927 میں سٹیٹ سبجیکٹ قانون کا اجرا کیا۔ اس قانون کے تحت ریاست جموں کشمیر کے اندر سرکاری ملازمتوں کا حق صرف ریاستی باشندوں کا تسلیم کیا گیا۔ ریاست جمو ں کشمیر میں زمین کی ملکیت کا رکھنے اور اس کی خرید و فروخت کے لیے ریاستی باشندہ یعنی سٹیٹ سبجکٹ ہو نا لازمی قرار دیا گیا۔ سٹیٹ سبجکٹ سے مراد ایک ایسا شخص جو جدی پشتی کشمیری ہو۔ اس قانون کا مطالبہ کرنے والے ہندو پنڈت تھے۔ اور اس کا اعلان مہاراجہ ہری سنگھ نے کیا تھا۔ لیکن اس کا فائدہ کشمیری مسلمانوں کو بھی ہوا۔ چنانچہ یہ ریاست کا ایک مقبول اور غیر متنازعہ قانون بن گیا ، جس پرسال1947 یعنی تقسیم بر صغیر تک سختی سے عمل ہوتا رہا۔
چھبیس اکتوبر1947 کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست جموں کشمیر کے بھارت کے ساتھ نئے قانونی اور آئینی رشتے کا تعین کرتے ہو ئے ریاست کے دفاع، خارجہ اور ابلاغ کے سوا تمام دیگر معاملات کو ریاست کے داہرہ اختیار میں رکھا۔ اس تعلق کو بھارت کے آئین کے آرٹیکل تین سو ستر کے طے قانونی شکل دی گئی۔
کشمیریوں اور بھارت کے درمیان انیس سو باون کے دہلی ایگرمنٹ میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ریاست کے تمام باشندوں کو بھارتی شہریت دی جائے گی، لیکن ریاستی باشندوں کے بارے میں قانون سازی کا اختیار صرف ریاست جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو ہی حاصل ہو گا۔ گویا بھارت کے شہری ہونے کے باوجود بھارت کے بعض قوانین کا اطلاق ریاستی باشندوں پر نہیں ہوگا۔ اس بات کی وضاحت کے لیے خود پنڈت جواہر لال نہرو کی تقریر کافی ہے۔ اس موقع پر لوک سبھا سے خطاب کرتے ہوئے پنڈت جواہر لال نہرو نے کہا
ظاہر ہے شہریت کا سوال اٹھتا ہے۔ کشمیریوں پر پوری شہریت کا اطلاق ہوتا ہے۔ لیکن کشمیر میں ہمارے دوست ایک دو معاملات پر بہت فکر مند تھے۔ طویل عرسے سے مہاراجہ کے دور سے قانون موجود رہے ہیں جو غیرکشمیریوں کو کشمیر میں زمین کی ملکیت سے روکتے ہیں۔ پرانے زمانے میں مہاراجہ خوف دہ تھا کہ کشمیر کے خوبصورت موسم کی وجہ سے انگریز بہت بڑی تعداد میں وہاں زمینیں خرید کر بس جائیں گے۔ اگرچہ برطانوی حکمرانی کے تحت مہاراجہ سے بہت سارے حقوق چھین لیے گئے تھے ، مگر مہاراجہ اس بات پر اڑا رہا کہ کوئی باہر کا آدمی یہاں زمین نہیں خرید سکتا۔ اور یہ قانون اب تک چلتا ہے۔ کشمیر کی موجودہ حکومت بھی اپنے اس قانون کے تحفظ کے لے بے چین ہے۔ وہ خوفزدہ ہے، اور بجا طور پر خوف زدہ ہے کہ اگر یہ قانون بدل گیا تو کشمیر ایسے لوگوں سے بھر جائے گا ، جن کے پاس دولت ہے ۔ اور غریب لوگوں کو اپنی زمینوں جائدادوں سے بے دخل کر دیا جائے گا۔ موجودہ حکومت مہاراجہ کے اس قانون میں تھوری سی آزادی لانا چاہتی ہے، لیکن وہ زمین کی ملکیت کا قانون برقرار رکھناچاہتے ہیں۔ ہم ان کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ سٹیٹ سبجکٹ کا قانون کشمیرمیں کی زمین کی ملکیت ، سرکاری ملازمتوں اور دوسری چند چیزوں کے سلسلے میں ریاستی باشندوں کو کچھ مراعات دیتاتھا۔ ہم نے اس سے اتفاق کیا اور نوٹ کر لیا۔ کشمیر کی ریاستی قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ریاستی باشندوں کے حقوق و مراعات کا تعین کرے۔ خصوصا زمین کی ملکیت، سرکاری ملازمتوں اور کچھ دوسرے معاملات میں اسے قانون سازی کا حق ہے۔ اور جب تک ریاستی اسمبلی کوئی نیا قانون نہیں بناتی، اس وقت تک اس سلسلے میں مروجہ ریاستی قانون کا اطلاق ہو گا۔
جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی طرف سے دہلی سمجھوتے کی با قاعدہ منظوری کے بعد بھارتی صدرنے آئینی حکم انیس سو چو پن1954 جاری کیا جس کے تحت کشمیر کے ریاستی باشندوں کو بھارتی شہریت دی گئی۔ اور اسی کے ساتھ ہی بھارتی آئین میں آرٹیکل35 اے ڈالا گیا جو ریاست جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو ریاستی باشندوں کی مراعات کے تعین کا اختیار دیتا ہے۔
فی الوقت یہ بنیادی طور پر ایک آئینی معائدہ ہے، جو مقبوضہ کشمیر اور بھارت کے درمیان تعلقات کی نوعیت اور شرائط کا تعین کرتا ہے۔ یہ دو طرفہ معاہدہ ہے، جو ریاست اور بھارت کے درمیان ہے۔ اس معائدے میں کسی قسم کی یک طرفہ تبدیلی بھارت اور ریاست کے درمیان ایک طے شدہ آئینی تعلق اور سمجھوتے کو ختم کر دیتی ہے۔ اس سمجھوتے کی عدم موجودگی میں ان دونوں کے درمیان ایک نئے تعلق اور معائدے کی ضرورت ہے۔ یا نیا معاہدہ کیے بغیر بھارت کی مرکزی حکومت اگر اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتی ہے، یا اسے ختم کرتی ہے تو اس سے ایک آئینی بحران پیدا ہوتا ہے۔
ریاست کے ساتھ کوئی نیا تعلق قائم کرنے کے لیے محض بھارتی آئین میں تبدیلی کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے کشمیری عوام کی منظوری اور اس کی منتخب شدہ قانون ساز اسمبلی کی رضا مندی ضروری ہے۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کا یہ انتخابی نقطہ محض انتخانی نعرہ ہے، جس کا مقصد شدت پسند قوتوں کی خوشنودی اور ووٹ بٹورنا ہے۔
دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں اس نعرے کا خوف پھیلااکر کچھ قوتیں فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔ انتخابات کی گرد وغبار بیٹھ جانے کے بعد ان دونوں قوتوں کو احساس ہوگا کہ کشمیر جیسے نازک مئسلے پر انتخابی سیاست اچھا اقدام نہیں، بلکہ اس کے لیے بہت زیادہ سنجیدگی اور تدبر کی ضرورت ہے۔
♦