راو کامران علی
Moving the stop sign!!!
سٹاپ سائن کی ٹریفک سگنلز میں اہمیت ریڈ لائٹ کے برابر ہے؛ یعنی کسی صورت رکے بغیر نہیں گزر سکتے، اور اگر گزر گئے اور ٹریفک پولیس نے دیکھ لیا تو بھاری جرمانہ ہوسکتا ہے۔
ریاست ٹیکساس کے ایک چھوٹے سے شہر پیرس میں ایک سڑک کے کنارے ایک اسٹاپ سائن تھا اور لوگ اسٹاپ کرکے رکتے تھے۔ رفتہ رفتہ اس اسٹاپ سائن کے قریب درخت بڑا ہوگیا اور اس نے بڑی حد تک اسٹاپ سائن کو چھپا لیا۔ لوگ اسٹاپ سائن کو نوٹس نہ کرتے ہوئے رُکے بغیر کراس کرتے اور گھات میں بیٹھا پولیس آفیسر انھیں پکڑ لیتا اور مالی جرمانہ کرتا۔ مزے کی بات تھی کہ پولیس آفیسر سفید فام تھا اور زیادہ تر آبادی اور کار ڈرائیور سیاہ فام تھے تو وہ گالی گلوچ بھی کرتے اور اسے زیادتی بھی قرار دیتے کہ اسٹاپ سائن تو نظر ہی نہیں آتا تو انکا کیا قصور۔
لیکن گورے پولیس آفیسر کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ اور پھر ہمارے پاکستانی ڈاکٹر ارجمند ہاشمی اس ٹاؤن میں مئیر بن کر آگئے۔ لوگ ان تک یہ سالوں پرانا مسئلہ اور جھگڑے لے کر آئے۔ ڈاکٹر ہاشمی نے اسٹاپ سائن کا معائنہ کیا اور حکم دیا کہ اسے وہاں سے اکھاڑ کر دس فٹ پرے لگا دیا جائے جہاں ہر آنے جانے والا اسے دور سے دیکھ سکے اور ڈرائیور سائن پر رک جائیں۔ سالوں کا مسئلہ اور جھگڑے ایک منٹ میں حل ہوگئے۔
مجھے یہ واقعہ میرے دوست اداکار اور مشہور پروڈیوسر نور نغمی نے گزشتہ ہفتے میرے آرلنگٹن، ٹیکساس کے کلینک میں وزٹ کے دوران سنایا۔ نغمی صاحب مشہور ڈاکیو ڈرامہ “اینجلز ودن” کے خالق ہیں اور چند مہینوں میں انکی سلم ڈاگ ملینیر کی ہیروئن فریدہ پنٹو کے ساتھ ایک فلم “اونلی”ریلیز ہورہی ہے۔ انکی آمد پیرس ٹیکساس میں ایک فلم کی تیاری کی سلسلے میں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر ارجمند ہاشمی سے یہ قصہ سُن کر انھوں نے اس پر بھی ایک فلم “موونگ سٹاپ سائن ” بنانے کا ارادہ کر لیا ہے۔ انکی فلم “گنگا جینی” لے لئے پیرس میں لوکیشن فائنل کرلی گئی ہے اور جلد ہی شوٹنگ شروع ہوجائے گی۔
پہلا پیرس انٹرنیشنل فلم فیسٹیول اگلے سال مارچ سے شروع ہوجائے گا؛ پیرس ٹیکساس کی عوام بے حد پرجوش ہے کہ انکے ٹاؤن کو اتنی شہرت ملے گی اور لوکل اخبارات نغمی صاحب کے تشکر اور ذکر سے بھرے ہوئے ہیں۔
ہماری روزمرہ زندگی میں ایسے مسائل بارہا آتے ہیں جن کا حل آسانی سے نکالا جاسکتا ہے لیکن ہم نکال نہیں سکتے یا نکالنا نہیں چاہتے۔ زیادہ تر لوگ حل نکالنے سے زیادہ شکایت کرنے کی طرف راغب ہوتے ہیں مثلاً مذکورہ بالا قصے میں ڈرائیور حضرات شکایت اور رولا رپا ڈالتے رہے لیکن حل نہ سوچا جبکہ پولیس والا اس سے فائدہ اٹھاتا رہا، لوگوں کو اذیت دے کر لطف اندوز رہا لیکن اس نے بھی کوئی حل نہ نکالا۔
دنیا کے مسائل کے حل کے لئے ہزاروں کتابیں اور فلسفے پیش کئے گئے جن میں جارج پیلو کی کتاب “ہاؤ ٹو سالو اٹ” نے بڑی مقبولیت حاصل کی تاہم وہ ریاضی کے پیرائے میں تھی۔ عمومی طور پر “روٹ کاز انیلیسس تھیوری” مسائل کا گہرائی سی جائزہ لینے میں مددگار ہوتی ہے۔ یہ نام بھاری بھرکم ہے لیکن مضمون بہت آسان ہے مثلاً اگر آپکے لان یا کھیت میں خودرُو جڑی بوٹی آگ آتی ہے اور آپ اسے اکھیڑ دیتے ہیں تو یہ مسئلے کا فوری حل ہوگیا لیکن وہ جڑی بوٹی پھر اُگ آئے گی کیونکہ اسکا “روٹ کاز انیلیسس” نہیں کیا گیا۔ اب اگر گہرائی میں دیکھا جائے اور جڑ میں بوٹی کش ادویات ڈالی جائیں تو وہ دوبارہ نہیں اُگے گی؛ گویا “ڈنگ ڈپاؤ پروگرام” کی بجائے مستقل بنیادوں پر مسائل کا حل کیا جائے۔
“روٹ کاز انیلیسس” تھیوری میں ٹائی ٹینک جہاز کے ڈوبنے کا ماڈل پیش کیا جاتا ہے مثلاً ایک تھیوری ہے کہ عملہ نالائق تھا جو آئس برگ نہ دیکھ سکا دوسری تھیوری ہے کہ جہاز کی اسپیڈ اتنی زیادہ تھی کہ موڑا نہ جاسکا جبکہ تیسری تھیوری ہے کہ گھٹیا معیار کا جہاز تھا اور تباہ ہوگیا۔ یہ سب ٹھیک ہوسکتی ہیں اپنی اپنی جگہ پر اور دوبارہ نیا ٹائی ٹینک بناتے وقت، پرانے کی تباہی کا تجزیہ کرکے انکا تدارک کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ زندگی میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔ ایک عام انسان کی زندگی میں کسی ایسا “نایاب”مسئلہ ہونے کے امکانات اعشاریہ ایک فیصد سے بھی کم ہیں جس سے پہلے کسی کا واسطہ نہ پڑا ہو؛ اور چونکہ پہلے واسطہ پڑ چکا ہے تو کوئی نہ کوئی حل بھی نکل چُکا ہوگا، بس اس حل تک پہنچنا اصل مہارت ہے۔ اسی لئے ہر کلچر، ہر مذہب مشورے پر زور دیتا ہے اور اس کو مسئلے کو حل کرنا کہتے ہیں۔
دعا بھی ہے اور امید بھی کہ’’ موونگ سٹاپ سائن‘‘بھی نور نغمی صاحب کی سابقہ فلم “اینجلز ودن” کی طرح کامیاب ہوگی اور ہمارے لئے سبق آموز بھی!!!۔
♦