عمران خان نے پچھلے آٹھ سالوں سے اپنے جس ماہر معاشیات ارسطو کے گیت گائے تھے بالاخر اسے ناقص کارگردگی پر فارغ کر دیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے وفاقی کابینہ کی اہم وزارتوں میں ردو بدل بھی کیا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے وزیر توانائی کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کیا اور مستعفی ہو گئے تھے۔
جمعرات کو وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق کل پانچ وفاقی وزارتوں کے قلمدان بدلے گئے ہیں۔وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا قلمدان دیا گیا ہے۔ اس شعبے میں خصوصی مشیر کی ذمہ داری ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے پاس آگئی ہے۔
مستعفی ہونے والے وزیر خزانہ کی نشست ابھی خالی ہے تاہم مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو مقرر کیا گیا ہے۔غلام سرور خان کو وزارت پٹرولیم سے الگ کر دیا گیا ہے اور انھیں ایوی ایشن ڈویژن کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
اعجاز احمد شاہ کو وزیر داخلہ کا عہدہ دے دیا گیا ہے۔ شہریار آفریدی کو داخلہ امور کے بجائے اب وزیر مملکت برائے سرحدی امور مقرر کیا گیا ہے۔اعظم سواتی کو پارلیمانی امور کا وفاقی وزیر مقرر کیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے پاکستان کے وزیر خزانہ اسد عمر نے کابینہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اپنے دور میں ملکی معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کیے اور ان کی جگہ لینے والے وزیرِ خزانہ کو بھی معاشی چیلنجز کا سامنا رہے گا۔
اسد عمر نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کیے بیان میں کہا کہ وہ اپنی وزارت سے الگ ہو رہے ہیں اور پھر ایک پریس کانفرنس میں اپنے اعلان کی وجوہات بیان کیں۔
اسد عمر نے اپنے پیغام میں کہا ’وزیرِ اعظم کابینہ میں رد و بدل کے نتیجے میں چاہتے ہیں کہ میں وزارت خزانہ کی جگہ توانائی کا قلمدان سنبھال لوں۔ لیکن میں نے ان کی مرضی سے فیصلہ کیا ہے کہ میں کابینہ میں کوئی بھی عہدہ نہیں لوں گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا ’مجھے یقین ہے کہ عمران خان پاکستان کی واحد امید ہیں اور انشااللہ نیا پاکستان ضرور بنے گا۔‘
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے دور میں معیشت کی بہتری کے لیے مشکل فیصلے کیے اور نئے وزیر خزانہ کو بھی معاشی چیلنجر کا سامنا ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کی حکومت کے قیام کے وقت جہاں پاکستانی معیشت تھی وہ بدترین صورتحال تھی جس سے باہر نکلنے کے لیے فیصلے کیے گئے تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب معیشت بہتر ہو گئی ہے۔‘
اسد عمر نے کہا کہ پاکستان میں معیشت کی بنیادی چیزوں کو جب تک ٹھیک نہیں کیا جائے گا مسائل حل نہیں ہوں گے۔ انھوں نے واضح کیا کہ وہ پی ٹی آئی نہیں چھوڑ رہے اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا تھا کہ جو بھی نیا وزیرِ خزانہ آئے گا تو اسے مشکل حالات دیکھنے کو ملیں گے۔ ’نیا وزیرِ خزانہ جو بھی آئے گا، ایک مشکل معیشت کو سنبھالے گا۔‘سبکدوش ہونے والے وزیرِ خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو کچھ مشکل فیصلوں اور پاکستانیوں کو صبر کی ضرورت ہے۔
’اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم بہتری کی جانب جا رہے ہیں، لیکن ہمیں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ جو بھی آئے، فیصلے جو کرے اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور یہ نہ ان سے کوئی امید رکھے کہ معجزے ہوں گے اور اگلے تین مہینے کے اندر دودھ اور شہد کی ندیاں بہیں گی‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیرِ خزانہ کا عہدہ پاکستان کی بہتری کے لیے قبول کیا تھا اور اگر کوئی ان کے خلاف سازشیں کر رہا تھا تو اس سے انھیں فرق نہیں پڑتا۔
اسد عمر نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اچھی شرائط پر معاہدہ ہو رہا ہے اور آنے والا بجٹ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے تناظر میں بنے گا اور یہ بجٹ مشکل بھی ہو گا۔
خیال رہے کہ اسد عمر حال ہی میں امریکہ کے دورے کے بعد وطن واپس آئے تھے اور ان کی جانب سے وزارتِ خزانہ چھوڑنے کا اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان آئی ایم ایف کے حکام سے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔
اسد عمر سمیت چند دیگر وزرا کی وزارتیں تبدیل کرنے کے بارے میں چند روز سے پاکستانی میڈیا میں خبریں گردش کر رہی تھیں، تاہم وفاقی حکومت نے ان خبروں کو کئی بار مسترد کیا تھا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق اسد عمر کی جانب سے وزارت چھوڑنے کے بعد وفاقی وزیر برائے توانائی عمر ایوب وزیر خزانہ کے لیے مضبوط امیدوار ہیں۔
اس کے علاوہ سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کو مشیر خزانہ بنائے جانے کا بھی امکان ہے۔ شوکت ترین پاکستان پیپلزپارٹی کے دور میں وزیر خزانہ رہے ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے صدر میاں شہباز شریف نے وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹائے جانے پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ پہلے دن کہا تھا کہ پاکستان کی معیشت انا، ضد اور تکبر کی زد میں ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وزیر اعظم ضد، انا اور تکبر کو چھوڑ کر معیشت کو ترجیح دیں۔ میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے پہلے دن سے ہی میثاق معیشت کی پرخلوص پیشکش کی تھی۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر وقت ضائع نہ کیا جاتا تو ملک کو موجودہ معاشی تباہی کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی ترجمان مریم اونگزیب نے اپنے بیان میں کہا کہ اگر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اسد عمر کی پالیسیاں اتنی ہی اچھی تھیں اور تمام خرابیوں کی ذمہ دار پاکستان مسلم لیگ ن کی ہی تھی تو پھر اسد عمر کو مستعفی ہونے کے لیے کیوں کہا گیا؟
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اسد عمر کے ہٹائے جانے کے بعد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو اقتدار میں آنے کے8 ماہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کی پالیساں غلط تھی۔اُنھوں نے کہا کہ جن وزراء کے تعلقات کالعدم تنظیموں سے رہے ہیں ان کو بھی ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا تھا کہ جن وزارء کے تعلقات عام انتخابات کے دوران کالعدم تنظیموں سے رہے ہیں ان کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے، جس کے بعد اسد عمر نے وضاحت کی تھی کہ ان کا تعلق کبھی بھی کالعدم تنظیموں سے نہیں رہا۔
BBC