نوبل پرائز اور لینن پیس پرائز


لیاقت علی

نوبیل انعام پر پاکستان کا بایاں بازو ہمیشہ معترض رہا ہے۔اس کا موقف ہے کہ یہ ایوارڈ ان افراد کودیا جاتا ہے جوسرمایہ داری کے ہم نوا، سوشلزم، سوویت یونین اور سوشلسٹ بلاک کے مخالف ہوتے تھے۔بعض کامریڈزتو یہ تک کہہ دیتے تھے کہ نوبیل انعام کمیٹی تومحض نام کی ہے اس کے نام پرتمام ترفیصلےامریکن سی آئی اے کرتی ہے۔ کس کو انعام دینا ہے اورکون سی کتاب انعام کے لئے منتخب کرنی ہے یہ سب کچھ امریکن خفیہ ادارے کی صوابدید پرمنحصرہوتا تھا۔

یہ اسی نظریاتی دھڑے بندی کا نتیجہ تھا کہ جب روسی ناول نگاربورس پیسٹرناک اورشاعرمایا کوفسکی کونوبیل انعام ملا تو انھیں سوویت یونین نے یہ انعام وصول کرنے کے لئے بیرون ملک جانے سے روک دیا تھا۔سوویت یونین کے اس غیرجمہوری اقدام پر کسی انجمن ترقی پسند مصنفین یا بائیں بازو کے نظریات سے وابستہ کسی اورانجمن نے احتجاج ریکارڈ نہیں کرایا تھا اوریہ مطالبہ نہیں کیا تھا کہ ان کو انعام وصول کرنے کے لئے سوویت یونین سے باہر جانے کی اجازت دی جائے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ انعام انھیں ان کے کام کی بدولت نہیں بلکہ ان کےسوشلزم سے منحرف ہونے کی بنا پردیا گیا ہے۔

اورتواورفیض جیسے شاعر اورسبط حسن جیسے دانشورنے بھی ان دونوں کی حمایت کرنے کی بجائے چپ سادھ لی تھی اوران کی حمایت میں ایک لفظ تک نہیں کہا اور لکھا تھا۔

نوبیل انعام کمیٹی کسی ایک حکومت یا حکومتوں کےنمائندوں پرمشتمل نہیں ہوتی اور اس کے فیصلوں میں سیاسی وابستگیوں کو دخل بہت کم ہوتا ہے۔ اوراگر یہ مان بھی لیا جائےکہ نوبیل انعام کمیٹی کے فیصلے سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر ہوتے ہیں یا ماضی میں ہوتے تھے توفکشن، شاعری یا ڈرامے کی حد تک یہ بات درست ہوسکتی ہے لیکن جو انعام اس نے نیچرل اورمیڈکل سائنسز کے شعبوں میں کارہائے نمایاں سر انجام دینےوالوں کو دیئے ہیں یا دیتی ہے اس میں بددیانتی اوردھڑے بندی کیسے ہوسکتی ہے اس بات کی وضاحت کرنے سے ہمارے کامریڈز معذور تھے اورہیں۔

نوبیل انعام کے مقابلے میں سوویت یونین نے سٹالن انٹرنیشنل پیس پرائز کا آغاز کیا تھا یہ انعام سٹالن کی 70 سالگرہ پر 1949 میں شروع کیا گیا۔ یہ انعام ان افراد ، حکومتوں اورپارٹیوں کےعہدیداروں اوررہنماوں، شاعروں،ادیبوں اورفنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے خواتین وحضرات اورمذہبی رہنماوں کو دیا جاتا تھا جو سوویت یونین کی ریاستی پا لیسیوں کے حمایتی سمجھتے جاتے تھے۔ یہ انعام کس کو دینا ہےاس کا فیصلہ سوویت یونین کے سرکاری افسروں پر مشتمل ایک کمیٹی کرتی تھی جس کے پیش نظر سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی تھی کہ جس فرد کا نام انعام کے لئے تجویز کیا جارہا ہے وہ سوویت یونین کا خیرخواہ اور حمایتی ہے۔

سٹالن کی وفات کے بعد جب خروشچیف برسر اقتدار آیا تو اس نے اس انعام کا نام بدل کر اس کو لینن پیس پرائزکا نام دے دیا لیکن انعام دینے کا بنیادی اصول وہی رکھا جو سٹالن کے عہد میں تھا یعنی سوویت یوینن کی ریاستی پالسیوں کی حمایت۔ لینن پیس پرائز حاصل کرنے والوں کی فہرست پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں نیچرل اور میڈیکل سائنسز کے مختلف شعبوں میں نئی دریافتیں کرنے والوں کے نام ڈھونڈنے پڑیں گے جب کہ فہرست سوویت دوست سیاسی رہنماوں، شاعروں اور ادیبوں سے بھری پڑی ہے۔

لینن پیس پر ائز کسی خاص شعبہ زندگی میں نمایاں کارکردگی سے زیادہ سوویت یونین کی ہر حال میں حمایت سے کرنے والوں کو ملتا تھا لینن پیس پرائز اسی قسم کا انعام تھا جیسا ہر سال ہم صدارتی تمغہ حسن کارکردگی دیتے ہیں۔ سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی اب تو اس کی اہمیت بھی ختم ہوگئی۔

One Comment