منیر سامی
گزشتہ دنوں فرانس کے شہر پیرس کی اہم علامت ، نوترے دام کا کلیسا، ایک افسوسناک آتشزدگی کا شکار ہو گیا۔ یہ کلیسا دنیا بھر میں فرانس کی پہچان سمجھا جاتا تھا۔ اسے اقوامِ متحد ہ نے ایک عالمی ورثہ قرار دیا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق اسے ہر سال ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد دیکھنے جاتے تھے۔ اس کی اہمیت سمجھنے کے لیے آپ آگرہ کے تاج محل، کراچی میں قائدِ اعظم کے مزار، لاہور کے مینارِ پاکستان، استنبول کی نیلی مسجد، قاہرہ کے اہرام، اور نیویارک کی امپایئر اسٹیٹ بلڈنگ کو ذہن میں رکھیں۔
کہنے کو ان میں سے بعض عمارتیں، بعض مذہبوں یا عقیدوں سے تعلق رکھتی ہیں، لیکن وہ انسانی فنکاری اور کاریگری کی ایسی مثالیں ہوتی ہیں جن سے ہر انسان کا جی خوش ہوتا ہے اور وہ اسے اپنا ورثہ ، اپنا سرمایہ جانتا ہے۔
پیرس میں ـ’نوترے دام ‘ یا Notre Dame کا کلیسا دراصل حضرت مریم سے منسوب ہے۔ اس کی بنیا د بارہویں صدی میں پڑی اور یہ تیرھویں صدی میں مکمل ہوا۔ یہ قدیم عیسائی طرزِ تعمیر کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس کی خوب صورتی بے مثال جانی جاتی ہے۔ اور اس میں مصوری ، منقش شیشہ گری، اور کارچوبی کے نہایت اہم نمونے موجود ہیں۔ کلیسائی روایتوں کے مطابق یہاں حضرت عیسٰی کا کانٹوں کا وہ تاج ، جسے انہیں مصلوب کیئے جانے سے پہلے شہر میں ان کے جلوسِ رسوائی کے وقت پہنایا گیا تھا، موجود تھا۔
اسی طرح اس صلیب کی لکڑی کا ایک ٹکڑا، اور صلیب کی ایک ایسی کیل بھی ہے جسے مذہبی اسطورہ کے مطابق ان کے جسم میں ٹھوکا گیا تھا۔ ان یادگاروں کو سال میں ایک بار عیسائی روزوں کے مہینہ میں عوام کی زیارت کے لیئے دکھایا جاتا ہے۔ اس کی مثال آپ مسلم پیغمبر محمد صلعم کے موئے مبارک کی نمائش سے دے سکتے ہیں، جیسا کہ کبھی کشمیر میں حضرت بَل کی درگاہ میں ہو تا ہے۔
اس گرجے سے کئی تاریخی واقعات کا بھی تعلق ہے، یہاں برطانیہ کے بادشاہ ہنریؔ ششم کی تاجپوشی ہوئی، جونؔ آف آرک کو شہید قرار دیا گیا۔ یہیں نیپولینؔ اور کئی اہم سربراہانِ مملکت کی تاجپوشی بھی ہوئی۔ اٹھارویں صدی میں انقلابِ فرانس کے دوران اس گرجا کی بے حرمتی کی گئی، اور اس کی منوں وزنی گھنٹیوں کو اتار کر اور پگھلا کر انقلابیوں نے اپنی توپیں بنایئں۔ یہ گزشتہ صدیوں میں مختلف بے حرمتیوں، بے اعتنایئوں کا شکار بھی ہوا، اور ہر حادثہ کے بعد ا س کی تعمیرِ نو کی گئی۔
انیسویں صدی کے اوائل میں اہم مصنف Victor Hugo نے اپنا ناول Notre Dame de Paris شائع کیا جسے انگریزی میں Hunch Back of Notre Dame یا نوترے دام کا کُبڑا کہتے ہیں۔، اس ناول کی اشاعت کے بعد اس گرجے کو دنیا بھر میں دائمی شہرت ملی، اور یہ زباں زدِ خاص و عام ہو گیا۔ حیران کُن طور پر اس ناول میں وکٹر ہیوگو ؔ نے اس گرجا میں لگنی والی ایک آگ کا ذکر اس طرح کیا ہے ،’’ سب نظریں گرجے کے بالائی حصہ پر مرتکز تھیں۔ ان نظروں میں ایک غیر معمولی نظارہ تھا۔ بہت ہی اونچی منزل پر جو وہاں کی خوبصورت منقش کھڑکیوں سے بھی زیادہ بلند تھی، دو بُرجوں کے درمیان چنگاریوں کے بھنور میں گھرا ایک بہت بڑا شعلہ ابھر رہا تھا۔ یہ شعلہ اور بھی بے قابو شعلوں کے گرداب میں رقصاں تھا، اور اس سے ابھرنے والے دھوئیں کی زبان آسمان چاٹ رہی تھی۔‘‘
بالکل یہی منظر گزشتہ دنوں بھی تھا، جب ہزاروں افراد ایک بے چارگی کے عالم میں نم آنکھوں کے ساتھ گریہ کر رہے تھے۔ سینکڑوں لوگ اپنے اپنے طور اس عالمی ورثہ کی بقا کی اور ان شعلوں سے الجھے ان افراد کے لیئے دعایئں مانگ رہے تھے، جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس بھیانک آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس موقع پر پیرس اور اس کے اطرا ف میں سینکڑوں گرجوں میں دعائی گھنٹیاں بھی بجائی جارہی تھیں۔ ان گھنٹیوں کو سن کر پیرس اور فرانس کے شہریوں کے کانوں میں وہ گھنٹیا ں گونج رہی تھیں، جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد پیرس ؔ کے آزاد ہونے پر نوترےؔ دام کے گرجا سے بجائی گئی تھیں۔
یہاں یہ یاد کرنا بھی ضروری ہے کہ فرانس دنیا بھر میں ـسیکولر نظامِ حکومت کا مضبوط قلعہ جانا جاتا ہے۔ فرانس کے شہریوں نے سالہا سال کی جدو جہد کے بعد فرانس کے معاشرے پر کیتھولک مذہب اور پادریوں کے قبضہ اور استحصال کو ختم کرتے ہوئے گرجوں اور مذہبی اداروں کی ساری مراعات ختم کردی تھیں۔ اور یوں مذہب اور ریاست کی علیحدگی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے طے کردیا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہاں عیسائی مذہب ہی کو ختم کر دیا گیا ، بلکہ ہر شخص کو اپنے اور دوسروں کے مذہبی عقائد کا احترام کرنے دیا گیا، لیکن کوئی بھی مذہب قانوں سازی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت سلب کی گئی۔
اس کے ساتھ ساتھ ریاست اور شہریوں نے اپنے تہذیبی سرمایہ کو اپنایا اور اس کی حفاظت کے انتظام کیے گئے۔ گزشتہ چند سالوں سے اس گرجہ کی مرمت کے لیے کروڑو ں ڈالر خرچ کیے جارہے ہیں ، جو گرجا کے ذمہ دار عوامی چندوں سے جمع کرتے رہے ہیں۔ لیکن اب اس بھیانک آتش زدگی کے بعد فرانس کی حکومت اس عالمی ورثہ کی تعمیرِ نو کے لیئے اپنا کردار ادا کر ے گی۔ یہی مہذب ممالک کی روایت ہے۔ دنیا بھر میں ان ہی قوموں کا ثقافتی احترام ہوتا ہے جو اپنے تاریخی روایتی ورثہ کی حفاظت کرتی ہیں۔ نہ کہ ان قوموں کا جو موہن جو ڈرو ؔ ، یا ہڑپہؔ جیسے ورثو ں کی طرف بے اعتنائی کا رویہ اپناتی ہیں۔
♦