ملالہ یوسفزئی کے نام ایک خط
پیاری ملالہ
میں آپ کی ہم وطن ہونے کے ناطے سے آپ سے مخاطب ہوں۔ مجھے آپ پر فخر ہے کہ آپ واحد پاکستانی بیٹی ہیں جسے کم عمری میں ہی دنیا کا اعلیٰ ترین اعزاز نوبل انعام ملا۔ اور یہ انعام اس جدوجہد کا ثمر ہے جو آپ نے اپنے علاقے میں انتہا پسندوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کی ہےجہاں آئے روز لڑکیوں کے سکولوں کو دھماکوں کا نشانہ بنایا جارہا تھا ۔
مجھے آپ کے وہ خطوط نہیں بھولتے جو آپ نے بی بی سی پر گل مکئی کے نام سے لکھے تھے ۔ یہ آپ ہی تھیں جنھوں نے پاکستان سمیت دنیا کو بتایا تھا کہ کیسے ہمارے علاقے میں طالبان اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہے ہیں۔ انہی خطوط کے ذریعے ہمیں پتہ چلا کہ پاکستان کی سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیاں طالبان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کررہی ہیں اور طالبان اسلامی شریعت کی آڑ میں مقامی لوگوں پر ظلم و ستم کر رہے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دوہزار چار اور پانچ میں پاکستانی ریاست نے سوات میں طالبان کو بسانا شروع کیا تھا تو کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ وہ ان کے خلاف آواز اٹھاتا، ان طالبان کا پہلا نشانہ سی ڈی کی دکانیں تھیں اور دوسرا نشانہ حجام کی دکانیں تھیں جہاں شیو کرنا جرم قراردیا گیا تھا مجھے وہ ہولناک دن بھی یاد ہیں جب طالبان اپنے مخالفین کی گردنیں کاٹ کر اور ان کی لاشوں کو سر عام سوات کے چوراہوں میں کئی کئی دن تک لٹکا دیتے تھے۔ تاکہ لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔ اس وقت پاکستان کا میڈیا اس کے میزبان اور صحافیوں نے اپنے ہونٹ سی لیے تھے۔ بلکہ ان صحافیوں اور لکھاریوں نے تو طالبان کی قائم کردہ قاضی کورٹس کی تعریف میں کئی کالم لکھ دیئے تھے اور سرکاری مشنری تو ان کے امیر مُلا فضل اللہ کےپیچھے نماز پڑھنا شروع ہو گئی تھی۔
ان مشکل حالات میں آپ ہی سامنے آئیں اور گل مکئی کے نام سے خط لکھنے شروع کیے جو بی بی سی پر شائع ہوئے اور دنیا کو طالبان کے مظالم بارے معلوم ہوا۔ ان کے مظالم کی خبریں جب باہر نکلنا شروع ہوئیں تو ملکی اور غیر ملکی دباو کے تحت پاکستانی ریاست نے بادل نخواستہ ان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کیا ۔ اسی لیے طالبان آپ کو بھی اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ایک دن موقع دیکھ کر انہوں نے آپ کو نشانہ بنایا لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔
جب بین الاقوامی طور پر آپ کی پذیرائی ہوئی تو پھر پاکستانی حکومت کو بھی خیال آیا کہ آپ کی عزت افزائی کی جائے۔ حکومت پاکستان نے آپ کو اعزازت سے نوازا۔ حامد میر کو بھی آپ کی خدمات کا علم تو اس نے آپ کو پروگرام میں بلایا ۔مجھے یاد ہے کہ آپ نے حامد میر کے سوال کے جواب میں بڑے ہو کر وزیراعظم بننے کی خواہش کا ذکر کیا تھا۔اور یہ بڑی حیرانگی کی بات تھی کیونکہ ہمارے ہاں ذہین لڑکیاں ڈاکٹر، انجئیر یا سوشل ورکر بن کر قوم کی خدمت کرنا چاہتی ہیں لیکن آپ نے اپنے لیے سیاست کا میدان چنا۔کیونکہ ہماری ریاست اور اس کے بھونپو میڈیا نے سیاست اور سیاستدانوں اور سیاسی عمل کو انتہائی گھٹیا عمل بنا کر پیش کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ آپ جلد ازجلد تعلیم مکمل کرکے باقاعدہ سیاست میں آئیں۔
آپ کے پاکستان سے جانے کے بعد پاکستان کی انتہا پسند مذہبی تنظیموں اور ریاستی سرپرستوں نے مزید شدت کے ساتھ اپنے ہی شہریوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جو بھی شہری ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے جبری طور پر لاپتہ کر دیاجاتا ہے یا پھر جھوٹے پولیس مقابلوں میں ماردیا جاتا ہے۔
ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں ہماری مائوں بہنوں کی عزتوں سے کھیل رہی ہیں۔ ہزارہ کمیونٹی کی منظم نسل کشی ہورہی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو جبری طور پر لاپتہ کیا جارہا ہے ان کی مائیں بہنیں بیٹیاں سخت سردی اور گرمی میں کھلے میدان تلے بیٹھی احتجاج کر رہی ہیں۔ ہمارے ہاں غریب ہندو لڑکیوں کے اغوا میں تیزی آتی جارہی ہے جنھیں زبردستی مسلمان کرکے مسلمان لڑکوں سے شادیاں کرائی جاتی ہیں۔ اگر گل مکئی ان کے حق میں ایک بیان دے دے تو پوری دنیا آپ کی آواز سنے گی اور دنیا کو پتہ چلے گا کہ پاکستان میں کیا ظلم ڈھایا جارہا ہے۔
پاکستان میں رہنے والے لکھاری، صحافی اور دانشوروں کو تو چپ لگ گئی ہے لیکن آپ تو انٹرنیشنل ہیرو ہیں، پوری دنیا گھومتی ہیں اگر آپ پاکستان میں لڑکیوں کے ساتھ جاری مظالم پر آواز اٹھائیں گی تو آپ کی آواز سنی جائے گی ویسے ہی جیسے گل مکئی بی بی سی کے ذریعے طالبان کے مظالم کو منظر عام پر لا ئی تھی۔
جب آپ بین الاقوامی فورمز پر تیسری دنیا کی مظلوم لڑکیوں کی تعلیم پر بات کرتی ہیں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ چونکہ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے تو پاکستان کی مظلوم بہنیں ، بیٹیاں اور ان کی مائیں جن کے آنسو رو رو کر خشک ہو چکےہیں وہ آپ کی طرف سے ہمدردی کے دو بول سننے کی منتظر ہیں۔ انہیں فنڈز نہیں چاہیں انہیں صرف اپنے پیارے چائیں جنہیں ریاست اغوا کر لیتی ہے یاوہ ہندو لڑکیاں جنہیں زبردستی مسلمان کرکے اپنے خاندانوں سے جدا کر دیا جاتا ہے۔
میں امید کرتی ہوں کہ آپ اپنی خاموشی توڑ کر پاکستان کی مظلوم خواتین کے حق میں پوری دنیا میں آواز اٹھائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ پاکستانی شہری کس ظلم کا شکا ر ہیں ۔ پاکستانی ریاست اپنے عوام کی تو سننے والی نہیں اسے بین الاقوامی دبائو ہی راہ راست پر لانے پر مجبور ہوگا۔
والسلام
حنا بلوچ، کراچی