وزیر اعظم پاکستان عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ ماضی کے مقابلے میں عسکریت پسند تنظیموں سے متعلق اپنی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی کر رہی ہے، تاہم عالمی سطح پر ناقدین اس پر اعتبار کرتے نظر نہیں آتے۔
پاکستانی حکومت عالمی برداری کو یقین دلانے کی کوشش میں ہے کہ وہ ملک میں بڑی تبدیلیاں لا رہی ہے۔ غیرملکی صحافیوں کے ایک گروپ سے ملاقات میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان، فوجی سربراہ جنرل قمر باجوہ اور دیگر اہم سرکاری عہدیداروں نے رواں ماہ ملاقاتوں میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی۔ ان ملاقاتوں میں ہوئے کچھ تبصرے عوامی سطح پر جاری کرنے کے لیے تھے اور کچھ ظاہر نہ کرنے کے لیے، مگر پیغام ایک ہی تھا۔
پاکستان کا موقف ہے کہ وہ تنازعات سے تنگ آ چکا ہے، شدت پسندی کے خلاف ہے، کرپشن کا خاتمہ چاہتا ہے اور امن مذاکرات کے لیےآمادہ ہے۔ اس کا یہ بھی اصرار ہے کہ اس وقت پاکستانی سویلین حکومت فوج کے ساتھ مل کر فیصلے کر رہی ہے، مگر فوج کے زیر اثر نہیں۔
مگر خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دنیا میں پاکستان کی صورت حال کو باریکی سے سمجھنے والے ان حکومتی دعووں کو زیادہ درست نہیں سمجھتے۔
بھارت کا اس نئے پاکستانی نکتہ ہائے نظر پر موقف ہے کہ اسلام آباد حکومت کی جانب سے ماضی میں بھی ایسے ہی وعدے کیے جاتے رہے ہیں، تاہم پاکستان نے بھارت پر حملوں میں ملوث گروپوں کی پشت پناہی جاری رکھی۔ بھارت کا یہ بھی الزام ہے کہ 14 فروری کو کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سکیورٹی اہلکاروں پر ہوئے خود کش حملے میں چالیس سے زائد اہلکاروں کی ہلاکتوں کے درپردہ پاکستانی عسکری گروہ تھا۔
روئٹرز کے لیے اپنے ایک کالم میں بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے لکھا، ’’پاکستان تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف قابل اعتبار اور ٹھوس اقدامات کرے۔ پاکستان بھارت میں ہر دہشت گردانہ واقعے کے بعد بین الاقوامی دباؤ سے بچنے کے لیے ہر بار اسی طرح کے دعوے کرتا ہے اور حالات معمول پر آتے ہیں، تو پھر اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کی معاونت شروع کر دیتا ہے‘‘۔
روئٹرز کے مطابق، پاکستان کی جانب سے مثبت بات چیت کی دعوت کا کوئی اثر بھارت میں حکمران ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی پر ہوتا نظر نہیں آتا اور خصوصاﹰ ایک ایسے وقت میں جب وہاں عام انتخابات کا انعقاد ہو رہا ہے۔
پاکستان کا موقف ہے کہ بھارت عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف لابیئنگ میں مصروف ہے، تاکہ کسی طرح پاکستان کو فنانشل ایکشن ٹاسک فورسز کی جانب سے بلیک لسٹ میں داخل کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے، تو پاکستان پر عالمی مالیاتی پابندیاں عائد ہو سکتیں ہیں، جو پاکستان میں بینکنگ کے شعبے کے لیے نہایت مضر ہوں گی اور اس سے تجارت کو بھی شدید نقصان پہنچے گا۔
ایک ایسے موقع پر جب پاکستان 13ویں مرتبہ عالمی مالیاتی فنڈ سے مدد لے کر اپنی تاریخ کے ایک بڑے بجٹ خسارے، بڑھتی افراط زر اور سکڑتی اقتصادیات سے چھٹکارے کی کوشش میں ہے، ایسی کوئی بھی پیش رفت پاکستان کے لیے شدید مشکلات کا باعث بنے گی۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت تمام ممالک کے ساتھ امن کی خواہاں ہے۔ افغانستان میں بھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے جب کہ گزشتہ برس اگست میں برسر اقتدار آنے والے عمران خان کئی مرتبہ بھارتی وزیراعظم نريندر مودی کو امن کی پیش کش کر چکے ہیں۔ دوسری جانب ایران کے اپنے حالیہ دورے میں بھی عمران خان نے سرحدی علاقوں میں مشترکہ ریپڈ ری ایکشن فورسز کے قیام پر اتفاق کیا تھا۔
تاہم ناقدین کا خیال ہے کہ اگر یہ حکومتی دعوے درست ہیں، تو عملی طور پر پاکستان کو متعدد واضح اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، جو اب تک دکھائی نہیں دیے۔ پاکستانی ریاست ابھی تک زبانی جمع خرچ میں مصروف ہے۔ لشکر طیبہ،جیش محمد، حزب المجاہدین کے خلاف کاروائی کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔
DW/Net News