لیاقت علی
ایک صاحب علم دوست جو ایک سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں نے سوشل میڈیا میں سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان آرمی کے آفیسرز( کپتان، میجر، کرنل اور بریگیڈئیروغیرہ) تعلیم یافتہ ،مہذب،روشن خیال،عیش و آرام کے دلدادہ،جدید ٹیکنالوجی سے آشنا،انگریزی زبان پڑھنے ،لکھنے اور بولنے والے ہیں۔ ان کے بچے گرائمر اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ خود امریکہ اور یورپی ممالک میں پیشہ ورانہ امور سے متعلق کورسز کرتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ ملک کے لبرل اور روشن خیال افراد اور تنظیموں سے فکری تعلق قائم کرنے کی بجائے اپنے حمایتی رجعتی مولویوں اور مذہبی بنیاد پرستی کے داعی عناصر میں تلا ش کرتے ہیں اور انہی عناصر کی مدد، تعاون اور حمایت سے ملک کی پالیسیاں کارخ متعین کرتے ہیں۔
ہمارے محترم دوست کی خدمت میں عر ض ہے کہ ہمارے فوجی افسران ہوں یا پھر سول بیوروکریسی اس کا رہن سہن ، طور طریقے بلاشبہ ماڈرن اور جد ید طرز زندگی کے لوازمات سے آہنگ ہے لیکن جہا ں تک تعلق ہے ان کے ذہنی اور فکر ی رویوں کا،اس حوالے سے وہ ماضی قدیم میں رہ رہے ہیں۔
وہ انگریزی زبان پڑھتے ہیں بولتے ہیں اوراگر ضرورت پڑے تو لکھتے بھی ہیں اور بس ۔ یہ ان کے لئے پیشہ ورانہ ترقی کا ٹول ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔انگریزی زبان و ادب سے جڑی تہذیبی کشادگی اور ثقافتی تنوع کی اقدار سے ان کو کوئی لینا دینا نہیں بلکہ وہ ان اقدار سے بیزار اور متنفر ہیں۔
ہماری فوجی اور سول بیورو کریسی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے جاہ و جلال ، ان کی لا متناہی مراعات کی جڑیں مولوی کی فکر میں پیوست ہیں۔ہماری فوج جسے اپنا ’ازلی ‘ دشمن سمجھتی ہے مولوی اس دشمنی کو نظریاتی جواز فراہم کرتا ہے۔پھر یہ مولوی ہی ہے جو عامتہ الناس کو یہ ہمہ وقت باور کراتا ہے کہ جو جہاں ہے اور جیسا ہے یہ الوہی قوتوں کی منشا کے عین مطابق ہے اور جو کوئی ان حالات کو بدلنے کی سعی کرتا ہے وہ دراصل آسمانی قوتوں کے ڈیزائن سے متصادم راہ اختیار کرتا ہے۔
اگر ہمارے فوجی آفیسرز ہمارے دوست کی خواہش کے مطابق اپنے نظریاتی حلیف ملک کے ’لبرل اور روشن خیال ‘ افراد اور تنظیموں میں تلاش کریں تو انھیں بہت سے امور میں جواب دہی کے عمل سے گذرنا پڑے گا جو انھیں کسی صورت قبول نہیں ہے۔’ازلی دشمن‘ سے صلح صفائی کی راہ پر چلنا پڑے گا جو ان کے لئے کسی صورت مفید نہیں ہے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد اور دوران ملازمت ملنے والی مراعات اور انعامات کے بارے میں جواب دہی کر نا پڑے گی ۔بعد از ملازمت پر کشش رہائشی پلاٹس اور زرعی زمین کی صورت میں ملنے والے انعامات ختم کرنے کا مطالبہ ہوسکتاہے۔ہمارے ’لبرل اور پڑھے لکھے ‘ فوجی آفیسرز کیسے یہ سب کچھ بر داشت کرسکتے ہیں ۔
ایک اور بات ،محض سگار پینے، کو ٹ پتلون پہننے ، انگریزی بولنے اور لکھنے سے کوئی شخص لبرل اور روشن خیال نہیں بن جاتا ۔لبرل ازم ایک نظام فکر ہے جس کا کسی شخص کے لباس اور کھانے پینے کی عادات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو مولانا ابوالکلام آزاد اور عبد الغفار خان جیسی شخصیات جو نماز روزے کی پابند تھیں سیکولر ازم کی داعی نہیں ہوتیں اور مسٹر جناح جیسی شخصیت جو اپنے اطوار،روز مرہ رہن سہن اور عادات خورد ونوش میں لبرل تھی مذہبی عقیدے کی بنیاد پر عوام کی تفریق پر زور نہ دیتی ۔
♦