امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ تہران میں ملکی سیاسی اور مذہبی قیادت پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک غیر معمولی قدم اٹھاتے ہوئے ایران کے پاسداران انقلاب نامی دستوں کو ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اس متوقع اقدام کا مقصد ایران کو بین الاقوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ الگ تھلگ کر دینا ہے۔ لیکن اس ممکنہ اعلان کے مشرق وسطیٰ اور دنیا کے دیگر علاقوں میں امریکی اہلکاروں کے لیے اور واشنگٹن کی پالیسیوں کے نتائج پر دور رس اثرات بھی مرتب ہوں گے۔
امریکا میں صدر ٹرمپ کی قیادت میں موجودہ ملکی انتظامیہ یوں تو تہران کے خلاف اپنی بیان بازی میں گزشتہ کئی مہینوں میں بہت تیزی لا چکی ہے، لیکن پاسداران انقلاب کو ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینا اپنی نوعیت کا بہت بڑا واقعہ ہو گا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اگر امریکی حکومت نے پاسداران انقلاب کو واقعی ایک ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا، تو یہ واشنگٹن کی طرف سے اپنی نوعیت کا ایسا پہلا فیصلہ ہو گا، جس کے تحت کسی غیر ملکی حکومت کے ’پورے کے پورے عسکری بازو‘ کو دہشت گردی کا مرتکب قرار دے دیا جائے گا۔ اس سے قبل واشنگٹن انتظامیہ ایران کے پاسداران انقلاب کے چند ذیلی اداروں کو بھی، جن میں سے ’قدس فورس‘ سب سے اہم تھی، اپنی طرف سے پابندیوں کا ہدف بنا چکی ہے۔
واشنگٹن میں ٹرمپ انتظامیہ کے چند اہلکاروں نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ ایران کے پاسداران انقلاب کو ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دینے کا امریکی اعلان آج پیر آٹھ اپریل کو ہی کیا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے ان ارادوں کی دو اعلیٰ امریکی حکام نے اپنے نام خفیہ رکھے جانے کی شرط پر اور امریکی کانگریس کے ایک مشیر نے بھی تصدیق کر دی۔
امریکی حکومت کے پاسداران انقلاب سے متعلق اس ممکنہ اعلان کے بارے میں خود تہران میں ایرانی حکومت کو بظاہر پہلے ہی سے کچھ اندازہ بھی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کل اتوار سات اپریل کو بظاہر صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ’’اس سے زیادہ اور بہتر معلومات ہونا چاہییں، بجائے اس کے کہ وہ امریکا کو ایک اور تباہی کی طرف لے جائیں‘‘۔
امریکی صدر ٹرمپ یوں تو جب سے اقتدار میں آئے ہیں، وہ ایران پر تنقید بھی کرتے رہے ہیں اور تہران کے خلاف فیصلے بھی، جن میں امریکا کی طرف سے ایران کے خلاف دوبارہ سخت پابندیوں کا نفاذ بھی شامل تھا۔ لیکن اب اگر انہوں نے پاسداران انقلاب کو باقاعدہ طور پر کوئی ’دہشت گرد تنظیم‘ قرار دے دیا، تو یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا تہران کے خلاف دوسرا انتہائی سخت اقدام ہو گا۔
ٹرمپ کا پہلا بہت بڑا ایران مخالف اقدام گزشتہ برس مئی میں کیا جانے والا وہ اعلان تھا، جس کے تحت امریکا یکطرفہ طور پر ایران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے نکل گیا تھا۔
ایران میں پاسداران انقلاب نامی دستوں کو ملک کی ایک کلیدی اور بہت جدید فورس سمجھا جاتا ہے، جس کے کئی ذیلی عسکری بازو بھی ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد ایران کے حکمرانوں کا اپنی عوام پر گرفت کو مضبوط کرنا ہے تاکہ انہیں انقلاب مخالف نظریات سے بچایا جا سکے۔ اس کے علاوہ ان دستوں کو نہ صرف ملکی معیشت کے ایک حصے پر کنٹرول حاصل ہے بلکہ وہ ایرانی معیشت کے کئی دیگر حصوں پر گہرے اثر و رسوخ کی حامل بھی ہے۔
اگر امریکا نے پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا، تو امریکا کے خاص طور پر عراق اور لبنان کے ساتھ عسکری اور سفارتی اشتراک عمل میں بھی بہت سی نئی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ اس لیے کہ عراق میں کئی شیعہ ملیشیا گروپوں اور متعدد سیاسی جماعتوں کے ایران کے ان دستوں کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔ دوسری طرف لبنان میں عسکری اور سیاسی تنظیم حزب اللہ نہ صرف ایرانی پاسداران انقلاب کی بہت بڑی اتحادی ہے بلکہ وہ بیروت میں لبنان کی موجودہ حکومت میں شامل ایک انتہائی اہم سیاسی جماعت بھی ہے۔
DW/Net news