محمد حسین ہنرمل
” کیا آپ نے کبھی غورکیا ہے کہ بعض لوگ اکہرے نہیں بلکہ دوہرے غدار ہوتے ہیں ۔ یعنی ایک زمانے میں ایسے لوگوں کے باپ دادا کو ملک سے غداری کی اسناد جاری ہوچکی ہوتی ہیں جبکہ موجودہ وقت میں خود ان کے نام بھی ملک دشمنوں کی فہرست میں نکل آتے ہیں ۔ بلاشبہ ، ایسے غداروں پر کڑی نظر رکھنا ،نہ صرف ریاستی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے بلکہ ہرعام پاکستانی کو بھی اس قسم کے عناصر سے ہوشیار رہنا چاہیے ۔
اس طرح کی دوہری اور موروثی غداری کے ضمن میں ہمارے پاس پشتونوں میں مرحوم ولی خان ابن ِباچاخان ، محمودخان اچکزئی ابن عبدالصمدخان ، بلوچوں میں مرحوم نواب خیربخش مری، سردار اختر مینگل جبکہ سندھ میں غلام مرتضیٰ المعروف جی ایم سید اس کی بین مثالیں ہیں۔
سننے میں آیاہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے موجودہ نامی گرامی جج قاضی فائز عیسیٰ بھی مرض ِ غدر میں مبتلا ہوئے ہیں تاہم ان کا معاملہ مذکورہ بالا غداروں سے قدرے مختلف بتایاجاتاہے۔ قاضی فائزعیسیٰ غدار ضرورہیں لیکن موروثی اور دوہرا غدار ہرگز نہیں ۔کیونکہ اُن کے والد قاضی محمد عیسیٰ مرحوم کا شمار تحریک پاکستان کے صف اول کے رہنماووں میں ہوتاتھا۔ جنہوں نے کبھی پاکستان دشمن سیاسی جماعت کانگریس کاساتھ دیاتھااورنہ ہی تقسیم کے بعد نئے ملک میں بعض قوم پرستوں کی طرح حکومت مخالف تحریکیں چلائی تھیں۔
قاضی محمد عیسیٰ کے آباواجداد بہت پہلے افغانستان کے تاریخی علاقے کندہار سے ہجرت کرکے پشین میں رہائش پذیر ہوئے تھے ۔خود وہ پشین ہی میں1913 کو پیداہوئے، کوئٹہ کے سنڈیمن اور گورنمنٹ ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر قانون تعلیم کیلئے انگلستان چلے گئے ۔واپسی پر بمبئی میں وہ قائداعظم محمد علی جناح سے مل کران کے وژن اور پروگرام سے متاثر ہوئے اور آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوئے۔
یہی وہ شخصیت تھی جنہوں نے بلوچستان میں پہلی مرتبہ آل انڈیا مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی ۔ اپنے ساتھیوں سردار عثمان جوگیزئی ، ملک جان محمد کاسی، ارباب کرم خان ،غلام محمدترین ،میرجعفرخان جمالی اور سیٹھ محمداعظم بلوچ کو ساتھ ملا کر مسلم لیگ کو بلوچستان میں منظم اور فعال کیا ۔ تیئیس مارچ 1940کو لاہور میں قرار داد پاکستان کے جلسے میں انہوں نے نہ صرف محض شرکت کی حدتک بلوچستان کی نمائندگی کی تھی بلکہ اس اہم موقع پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کیاتھا۔کہا جاتاہے کہ تقسیم ہند سے دوسال قبل کوئٹہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا پہلا اورمنظم جلسہ منعقد کرنے پر محمدعلی جناح کوعلی الاعلان یہ اعتراف کرنا پڑا ” بلوچستان کیلئے قاضی محمدعیسیٰ کا انتخاب ان کاباالکل مناسب فیصلہ تھا”۔
قاضی محمد عیسیٰ76سال کی عمر میں انتقال کرگئے اوران کاصاحبزادہ فائزعیسیٰ ان کے جانشین کے طور پر ابھرے ۔فائز عیسیٰ پیشے کے لحاظ سے قانون دان ہیں اور 2009سے 2014تک اپنے آبائی صوبے بلوچستان میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں۔ یہ آج کل سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج کے طور پر اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں پہلے بھی کہا کہ الحمدللہ موصوف موروثی غدار ہر گز نہیں ہیں تاہم قوم پرستوں کے گڑھ بلوچستان سے تعلق رکھنے کی بناء پرحب الوطنی ان سے بھی روٹھ گئی ہے ۔ یوں ہم انہیں اکہرے غدار کہہ سکتے ہیں ۔
کوئٹہ میں 8اگست 2016 کوسول ہسپتال میںخون آشام دہشتگرد حملے ( جس میں وکلاء کی پوری کھیپ سمیت سو سے زیادہ افراد شہید ہوئے تھے )کے بعد جب سپریم کورٹ کی طرف سے قاضی صاحب کو اس سلسلے میںایک رکنی تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تو موصوف کارویہ ٹھیک نہیں نکلا ۔ چھپن دنوں کی کاروائی کے بعد اپنی رپورٹ میں ا نہوں نے حکومت وقت ، وزارت داخلہ اور حساس اداروں کی کارکردگی پر سنگین نوعیت کے سوالات اٹھائے تھے جو بلاشبہ ایک ملک دشمن جج ہی کا کارنامہ ہوسکتاہے۔
مثال کے طور پر اس رپورٹ میں قاضی صاحب لکھتے ہیں کہ ”
۔1، آٹھ اگست کوہونے والے دونوں حملوں کا ایک دوسرے سے تعلق تھا اور ان آوروں کی شناخت تب ممکن ہوئی جب کمیشن نے مداخلت کی اور پولیس سے کہا کہ وہ ان کی فورنزک طریقہ کار کے ذریعے تصاویر لیں اور اخبارات میں شائع کریں ،اس کیلئے انعام بھی مقرر کیا گیا اور نتیجتاً ایک شخص نے خودکش حملہ آوروں کی شناخت کی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میںبھی بتایا ۔
۔2،ان حملہ آوروں کی جانب سے کیاجانیوالا یہ پہلا حملہ نہیں تھا ، اگرریاست کے کچھ عہدیدار اپنے گزشتہ حملوں کا فورنزک ریکارڈ محفوظ رکھتے اور کیس آگے بڑھاتے توشاید آٹھ اگست کے حملوں سے بچایا جاسکتاتھا ۔
۔3،کمیشن کا کہناتھاکہ بلوچستان میں قانون پرعملدرآمد نہیں کیاجاتا اور اقربا پروری کاکلچر ہے جس کی وجہ سے غیرقانونی طور پر نااہل افراد کوبھرتی کیاجاتاہے ، اس ضمن میں سیکرٹری ہیلتھ کا حوالہ دیاگیا جوکہ ایک وفاقی وزیر اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کے بھائی ہیں۔ایف سی سول انتظامیہ کو جوابدہ نہیں ہے لیکن پولیس کے مقابلے میں اس کاکردار غیر واضح ہے ۔
۔4،وزیراعلیٰ ، وزیرداخلہ اور ان کے ترجمان نے پریس کانفرنس میں غیر ذمہ دارانہ بیانات دیکر حکومت کی ساکھ کوکمزور کیا،ان بیانات میں من گھڑت بیانات ،بڑے پیمانے پر نشر ہوئے ،تحقیقات میں خلل ڈالا اور غلط توقعات بیان کی گئیں۔
۔ 5۔، وزارت داخلہ کی جانب سے داخلی قومی سیکورٹی پالیسی پر عمل نہیں کیا جارہا ، یہ وزارت غیر واضح لیڈر شپ اور ہدایات کے بغیر چل رہی ہے اور دہشت گرد ی کے نمٹنے کیلئے اپنے کردار کے بارے میں کنفیوژن کا شکار ہے۔
۔6نیشنل ایکشن پلان بامعنی یا منظم منصوبہ نہیں ہے ،نہ اس پر عملدرآمد کیاجارہاہےـ
۔7،انسداد دہشت گردی ایکٹ کی خلاف ورزی کی جارہی ہے ، کالعدم تنظیمیں اب بھی اپنی غیر قانونی کاروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کچھ دہشت گرد تنظیموں کیخلاف اب بھی قانونی کاروائی نہیں کی گئی حالانکہ ان کی جانب سے دہشت گرد حملے کیے جانے کے اعترافی بیانات نشر اورشائع ہوئے ہیں ۔
۔8،وفاقی وزیرداخلہ نے اپنی ذمہ داری بہت کم نبھائی ہے اور ساڑھے تین سال کے دوران نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا فقط ایک اجلاس منعقد ہواہے ۔
۔ 9،وزارت مذہبی امور قریب المرگ وزارت ہے ۔
۔ 10،مغربی سرحدوں کی نگرانی نہیں کی جارہی حتیٰ کہ سرکاری طورپر موجود راستے پر لوگوں اور ممنوعہ اشیاء کی آزادانہ آمدورفت میں کوئی رکاوٹ نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
اب آپ لوگ خود فیصلہ کرلیجیے کہ سپریم کورٹ کے ایک فاضل جج کی طرف سے بددیانتی اور دشمنوں کی خوشی کو دوبالا کرنے والی ایسی رپورٹ پر چوہدری نثار، شیخ رشید احمد اور سرفراز بگٹی جیسے محبان وطن سیخ پا نہیں ہونگے تو کیا کرینگے؟
اسی طرح پچھلے سال تحریک لبیک نے قانون رسالت کے معاملے پر جب جڑواں شہر راوالپنڈی کے فیض آباد پر دھرنا دیا تو اس وقت بھی قاضی فائز عیسیٰ ملک مخالف زبان بولنے لگے ۔سپریم کورٹ کی طرف سے اس دھرنے کا ازخودنوٹس لینے کے دوران قاضی صاحب نے اپنے ریمارکس میں سوال اٹھایا تھا کہ ”ان دھرنوں کے پیچھے کون ہیں ؟ انہیں کون لیکرآیا اور اس کافائدہ کس کو مل رہاہے ؟ ان کا کہناتھا کہ ان دھرنوں کی وجہ سے عوامی جائداد اور املاک توڑی جاتی ہے جس کا نقصان بالآخر عوام ہی کو بھرنا ہوتاہے ۔ حیف ،قاضی صاحب نے اسی وقت بھی نہ صرف محدود ریمارکس دینے پر اکتفاء کیاتھا بلکہ سرخ لائن کوعبور کرتے ہوئے کہا تھا کہ ” آج فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس ملک کو پارلیمنٹ نے چلانا ہے یا خفیہ اداروں نے؟ ۔
قاضی صاحب نے اس دوران یہ ہرزہ سرائی بھی کی تھی کہ دھرنے کے دوران مختلف ٹی وی چینلز کیوں بند تھے ؟ اور سوال اٹھایاتھاکہ کیااب ہم کنٹرولڈ میڈیا سٹیٹ میں رہ رہے ہیں ، وغیرہ وغیرہ ۔
قاضی صاحب کی وطن دشمنی اب آشکار ہوچکی ہے اور ان کی غداری پر اب پنجاب بار کونسل کی ذیلی تنظیم کے چند ثقہ غازیوں نے بھی گواہی دی ہے کہ موصوف بھارتی زبان بول رہے ہیں لہٰذا ان کی نااہلی پر تمام وکلاء کو یک زبان ہوناچاہیے ۔قاضی صاحب! اب لاکھ مرتبہ خود کو تحریک پاکستان کے غازی مرحوم قاضی محمد عیسیٰ کا خلفِ صالح باور کرادے اور ہزار مرتبہ اس ملک کی تعمیر میں اپنے آباواجداد کا خون پسینہ شامل ہونے کی پینگیں اڑائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ اب سچے پاکستانی نہیں رہے،۔
قاضی صاحب ! سن لیں اور ہمہ تن گوش ہوکے سن لیں،
تھے تووہ تمہارے آبا، مگر تم کیاہو،
ملک دشمنوں کے کشتی کاناخدا ہو، …… ( روح قبال سے معذرت کیساتھ)۔
♦