کارل مارکس کو کمیونزم کا بانی کہا جاتا ہے حالانکہ اس نظریہُ کو ہم مختلف شکلوں میں کارل مارکس سے بہت پہلے مختلف فلاسفروں کے فلسفے میں دیکھتے ہیں ۔ کارل مارکس کے استاد ہیگل جو ڈیکٹس کے فلسفے پہ کام کرتے تھے ۔ ہیگل کاکمیونزم کے فلسفے پہ بھی بہت کام ہے ۔ مگر ہیگل ایک آئیڈیل فلاسفر تھے ۔ کمیونزم کے نظریے کو صحیح شکل کارل مارکس نے دی ۔ اسی وجہ سے کارل مارکس کو کمیونزم نظریے کا بانی کہا جاتا ہے۔
کارل مارکس نے ہیگل کے کمیونزم نظریے کے بارے میں کہا تھا “ہیگل کے ہاں کمیونزم سر کے بل کھڑا تھا میں نے اسے پاوُں پہ کھڑا کردیا ہے “۔
فیمینزم نظریہ کی شکل ہمیں اٹھارویں صدی میں نظر آنی شروع ہوتی ہے مگر اس کو صحیح شکل سیمون دی بودا نے دی ہے ۔ اسی لیے سیمون کو بھی فیمنیزم کا بانی کہا جاتا ہے ۔
سیمون نے اپنی کتاب ” دی سیکنڈ سیکس” میں اس نظریے کے ہر پہلو پہ تفصیل سے بات کی ہے اور اسے ایک نظریے کے طور پہ پیش کیا ہے ۔ یہ کتاب سیمون نے 1954 میں لکھی جس کا اردو میں 64 سال بعد یاسر جواد نے “عورت ” کے نام سے ترجمہ کیا ہے ۔
اس کائنات کے تمام مذاہب نے عورت کو نمبر 2 الاٹ کر دیا ہے ۔ جس کو آپ تمام مذاہب کی کتابوں میں پڑھ سکتے ۔ پھر قبائلی ، جاگیردرانہ اور سرمایہ دارانہ نظام نے بھی عورت کو الاٹ کیا ہوا نمبر 2 کو وراثت کے طور پہ قبول کر لیا چاہے یہ نظام مذہبی ہو یا غیر مذہبی، بلکہ بعض ادوار اور بعض نظاموں میں تو عورت کو گنتی کا آخری نمبر دے کر اس سے بدترین سلوک کیا گیا ۔
مگر جس طرح انسان اپنے بقاء کے لیے طبقاتی ارتقاء کا سفر کرتا ہوا آج بہت حد تک اپنے معاشی اور انسانی حقوق حاصل کر چکا ہے اور اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اسی طرح معاشرے میں سب سے زیادہ جبر اور ظلم کا شکار ہونے والی جنس عورت جو پیدا ہونے سے مرنے تک مختلف لوگوں کے بستر پہ سوتی رہی ہے ، پیدا ہوئی تو ماں کے بستر پہ ذرا بڑی ہوئی تو بہنوں کے بستر پر اور جب اور بڑی ہوئی تو کسی مرد کے بستر پہ سوتی رہی ہے اب کسی حد تک اپنے بستر پہ سونے لگ گئی ہے ۔
پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں تعلیم یافتہ لوگوں کی تعداد شرم ناک حد تک کم ہے اور پھر انتہائی مذہبی متعصبانہ ماحول کی وجہ سے لفظوں کے معنی ہی بدل دئیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ لفظ “سیکیولر و لبرل ” کا مطلب مذہبی لوگوں نے لادین مشہور کر رکھا ہے ۔
اسی طرح فیمینزم کا مطلب بھی یہ لیا جاتا ہے جو عورت مرد کے خلاف ہو۔ حالانکہ فیمینزم کا نظریہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے مجھے “صرف” عورت ہی نہیں پہلے انسان بھی سمجھو ۔ لفظ “صرف” پہ غور کریں گے تو بات سمجھ میں آجائے گی ۔
عورت مرد کو کہہ رہی ہے کہ میں بھی تمہاری طرح انسان ہوں ۔ میری بھی کوئی پسند ہو سکتی ہے ۔ میری زبان کا ذائقہ تمہاری زبان سے الگ ہو سکتا ہے ۔لہٰذا ہم جسمانی ساخت اور اس کے مختلف ایکٹ کے علاوہ برابر ہیں، مگر پوری دنیا میں جب بھی عورت نے اپنے حقوق کی بات کی مرد کا معاشرہ اس کے خلاف متحد ہو گیا , چاہے وہ معاشرہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ، قبائلی ہو جاگیر دارانہ یا سرمایہ دارانہ ہو ۔
سیمون نے اس کتاب میں عورت کے مسائل اور فیمینزم کے فلسفے پہ کھل کر بات کی ہے ۔ اس فلسفے کے حامی یا مخالف دونوں کو یہ کتاب پڑھنی چاہیے ۔کہتے ہیں جو اپنی آزادی لے نہیں سکتا وہ کسی کو آزادی دے بھی نہیں سکتا۔،
سیمون اور ژاں پال سارتر بہت گہرے دوست تھے ۔ سیاسی اور ادبی فورم پہ دنوں نے ملکر ساری عمر کام کیا ۔ مگر دونوں نے اپنی شخصی آزادی کو برقرار رکھا ۔ دونوں ایک ہی محلے میں اپنے اپنے گھر رہتے تھے ۔ صبح دونوں اپنے اپنے گھروں سے نکلتے اور اس کافی ہاوُس پہنچ جاتے جہاں وہ ساری عمر بیٹھ کر اپنا ادبی اور سیاسی کام کرتے رہتے۔ شام کو اگر دونوں چاہتے تو دونوں کسی ایک کے گھر چلے جاتے ورنہ سیمون اپنے گھر چلی جاتی اور سارتر اپنے گھر چلا جاتا۔ اس طرح وہ الگ الگ مگر ساری عمر اکٹھے رہے ۔
♦