عدنان حسین شالیزئی
منظور پشتون نے ٹانک کے مقام پر منعقدہ جلسے میں کہا کہ ” پی ٹی ایم کے چار یا پانچ مطالبات نہیں ہیں ، بلکہ سینکڑوں مطالبات ہیں ” ۔ جس کے بعد ملک کے اندر اور باہر ایک نئی بحث چھڑ گئی ۔ کہ مطالبات کیوں اور کیسے بڑھ گئے ؟ ۔ تو میں بتاتا چلوں کہ سینکڑوں مطالبات ٹروتھ اینڈ ری کنسیلئیشن کمیشن کے زیر اہتمام اور زیر انتظام آتے ہیں ۔ جس میں ہزاروں متاثرہ لوگ اپنے مسائل کے کر حاضر ہوں گے ۔ ہر ایک کا مسئلہ دوسرے سے الگ نوعیت کا ہوگا ۔ اس لیے منظور پشتون کی طرف سے چار یا پانچ کی بجائے سینکڑوں مسائل کے ہونے کے مطالبہ کیا گیا ۔
ٹروتھ اینڈ ری کنسلیلئیشن کمیشن ہے کیا ؟ : ۔
A truth commission or truth and reconciliation commission is a commission tasked with discovering and revealing past wrongdoing by a government (or, depending on the circumstances, non-state actors also), in the hope of resolving conflict left over from the past. Truth commissions are, under various names, occasionally set up by states emerging from periods of internal unrest, civil war, or dictatorship. In both their truth-seeking and reconciling functions, truth commissions have political implications: they “constantly make choices when they define such basic objectives as truth, reconciliation, justice, memory, reparation, and recognition, and decide how these objectives should be met and whose needs should be served.”[1]
According to one widely cited definition: “A truth commission (1) is focused on the past, rather than ongoing, events; (2) investigates a pattern of events that took place over a period of time; (3) engages directly and broadly with the affected population, gathering information on their experiences; (4) is a temporary body, with the aim of concluding with a final report; and (5) is officially authorized or empowered by the state under review.”[ Wiki pedia ]
ایک ایسی باڈی کا قیام جو سچ اور حقائق کا پتہ لگائے اور فریق اول و فریق دوئم کو مفاہمت کے تحریری معائدے پر پابند کرے ۔ بہ الفاظ دیگر ، ایک ایسا کمیشن جو ریاست یا غیر ریاستی عناصر کی طرف سے ایک مخصوص کمیونٹی پر کیے گئے ظلم و زیادتی ، ان کی جبرا گمشدگی ، ماورائے عدالت قتل عام اور ان کے جائیداد و کاروبار کو نقصان پہنچانے کے بعد عارضی طور پر قائم کیا جاتا ہے ۔ جس میں عوام کے سامنے متاثرہ فریق قومی یا بین الاقوامی ضامن کے سامنے ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کے ظلم و زیادتی کے واقعات بہ مع ثبوت سامنے رکھتا ہے ۔ جس پر ضامن یا فیصلہ کرنے والی مجلس متاثرہ فریق کے ذاتی ، مالی ، جانی اور نفسیاتی طور پر ہونے والے نقصانات کا خمیازہ کرتی ہے ، اس وعدے کے ساتھ کہ ظلم و زیادتی میں ملوث یا ذمہ دار فریق آئندہ ایسے عمل کا مرتکب نہیں ہوگا ۔ ایسے کمیشن کی کاروائی انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی خاطر عام عوام کی موجودگی میں کی جاتی ہے ۔ جس میں ملکی و غیر ملکی پریس کی موجودگی پر بھی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے ۔
اس طرح کے کمیشن کا قیام کسی اچھنبے کی بات نہیں ہے ۔ ماضی قریب میں اس طرز کے کئ کمیشنز بنائے گئے ۔ جن کے نام مختلف المعانی ضرور ہیں لیکن مقصد کے اعتبار سے ایک جیسے ہیں ۔ سب سے پہلی مثال ہمیں یوگنڈا کی ملتی ہے ۔ جس میں 1974 میں کمیشن
Truth Commission: Commission of Inquiry into the Disappearances of People in Uganda since 25 January, 1971.
کے نام سے قائم کیا گیا ۔ اسی طرز کے دوسرے کمیشن کی مثال ہمیں بولیویا کی ملتی ہے ۔ جہاں
National Commission of Inquiry Into Disappearances 1982
کے نام سے کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ۔
15/ دسمبر 1983 کو ارجنٹائن میں
National Commission on the Disappearance of Persons,
کے نام سے کمیشن بنایا گیا ۔
چلی میں اپریل 1990 میں
Truth and Reconciliation Commission
کے نام سے کمیشن بنایا گیا ۔
1996 میں جنوبی افریقا میں
Truth and Reconciliation Commission (TRC)
کے نام سے کمیشن بنایا گیا ۔
علاوہ ازیں 1986 میں یوگنڈا ، نیپال میں 1990 ، ایلس واڈور میں 1992 اور گوئٹے مالا میں 1994 میں اس طرز کے کمیشن بنائے گئے ہیں ۔
پاکستان کے اندر عدم تشدد کے اصولوں پر مبنی پشتون تحفظ موومنٹ کے نام سے بنی غیر پارلیمانی تنظیم کا بھی یہی مطالبہ ہے کہ قومی یا بین الاقوامی ضامن کی موجودگی میں ٹروتھ اینڈ ری کنسیلئیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ جو دوران جنگ یا خانہ جنگی کے دوران بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی ، شہریوں کی گمشدگی ، شہریوں کے ماورائے عدالت قتل عام اور شہریوں کے جائیداد و کاروبار کے ذرائع کو بڑے پیمانے پر نقصانات کی تحقیقات کر کے متاثرہ فریق کے نقصانات کا ازالہ کرے ۔ پشتون تحفظ موومنٹ کا بیانیہ ہے کہ پاکستان کی فوج نے پہلے پہل پشتون بیلٹ میں دہشتگرد بنائے ۔ انہیں تربیت دے کر اسلحے سے لیس کر لیا ۔ انہیں ہمسایہ ملک افغانستان کی حکومت کو کمزور کرنے کیلئے استعمال کیا اور پھر ان دہشتگردوں کے خلاف پاکستانی فوج نے پشتون بیلٹ میں
1 : Operation Al-Mizan ۔ 2 : Operation Rah-e-Haq ۔ 3 : Operation Sher-e-Dil ۔ 4 : 5: Operation Zalzala ۔ 6 : Operation Sirat-e-Mustaqeem ۔ 7 : Operation Rah-e-Raast ۔ 8 : Operation Rah-e-Nijaat ۔ 9 : Operation Koh-e-Sufaid, Operation Zarb-e-Azb.
کے نام سے نام نہاد آپریشنز کیے ۔
پی ٹی ایم کے بقول مذکورہ فوجی آپریشن امریکی ڈالر بٹورنے کیلئے ، سیکیورٹی بیانیے کو تقویت دینے کیلئے ، پشتون وطن کے وسائل لوٹنے کیلئے کیے گئے ۔ ان فوجی آپریشنز کی بدولت تیس لاکھ پشتون بےگھر ہوئے ۔ ہزاروں معصوم پشتون ماورائے عدالت قتل کیے گئے اور ہزاروں ہی کی تعداد میں جبری طور پر گمشدہ کیے گئے ہیں ۔ سارے فاٹا میں لینڈ مائنز بچھانے سے آئے روز حادثات پیش آتے ہیں ۔
تعلیمی اداروں کے علاوہ سرکاری عمارتوں میں فوج کے ڈیرہ جمانے سے امور کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ علاہ ازیں غیر ضروری فوجی چیک پوسٹوں کے قیام سے عورتوں ، مریضوں اور عام عوام کی آمدورفت کٹھن بنا دی گئ ہے ۔ فوجی آپریشنز کے نام پر علاقے کا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا گیا ہے ۔ ان حقائق کی روشنی میں پی ٹی ایم نے ریاست سے سچ اور حقائق سامنے لانے کی خاطر اور متاثرہ لوگوں کے ہر قسم کے نقصانات کا ازالہ کرنے کیلئے ٹرتھ اینڈ ری کانسلیئشن کے قیام کا مطالبہ کیا ہے ۔
♦