بلوچستان میں جب کافی عرصہ تک دہشت گردی کاکوئی واقعہ پیش نہیں آتا تو دل ہی دل میں خوف بڑھ جاتا ہے کہ کہیں یہ سناٹا ایک آنے والےبڑے سانحہ کا پیش خیمہ تو نہیں کیونکہ پچھلے دو دہائیوں سے یہی تو ہوتا آرہا ہے کہ جوخونخوار درندے انسانی خون سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں کبھی اس سرزمین سے نکلے ہی نہیں ۔
انھیں کہیں اور جانے کی ضرورت اس لئے بھی تو محسوس نہیں ہوئی کیونکہ کوئی ان کی درندگی کے وجود ہی کو ماننے کو تیار نہیں ۔ جوں ہی وہ انسانوں کا قتل ِعام کرتے ہیں ہماری ہی حکومت اور میڈیا کے لوگ منٹوں میں یہ کہہ کر ان قاتلوں کی ضمانت کراتے ہیں کہ یہ ظالم قاتل انسان نہیں ہوسکتے، مسلمان نہیں ہوسکتے، پاکستانی نہیں ہوسکتے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ قاتل ہمارے اور آپ ہی کی طرح کے انسان ہیں، ان کے نام اور شکلیں ہم اور آپ ہی سے ملتی جلتی ہیں، یہ ہمارے ہی محلوں میں رہتے ہیں۔
اکثر اوقات یہ ہمارے اور آپ ہی کے ساتھ لوکل بسوں میں سفر کرتے ہیں، غالباًاسی سبزی منڈی سے راشن خریدتے ہیں جہاں ہم اور آپ جاتے ہیں بس مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو جھوٹ بولنے کی عادت ہوگئی ہے۔ حکومت کوفریب کے سہارے اپنی ذمہ داریوں سے بری الذمہ ہونے کی لت پڑ گئی ہے۔ حکومت کو اپنے شہریوں کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے یہ شارٹ کٹ دستیاب ہے کہ اس دہشت گرد ی کے پیچھے غیر ملکی عناصر کار فرما ہیں۔ یہ جھوٹ ہے۔ جب تک یہ جھوٹ دہرایا جائے گا تب تک ہمارے معصوم شہری مرتے جائیں گے اور ان کے قاتل فرار ہوتے رہیں گے۔
ہم یہ کیوں مانیں کہ دہشت گردی کے ان واقعات کے پیچھے غیرملکیوں کا ہاتھ ہے جب شعیہ مسلک کیخلاف نفرت کی پرچار ہماری ہی مسجدوں میں ہوتی ہے۔ غیر ملکی مساجد کے لاوڈ اسپیکر دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئیے تو استعمال نہیں ہوتے۔ غیر مُلکی اسٹالوں پر شعیہ مخالف لٹریچر نہیں بکتا۔ غیر مُلکی دیواروں پر “کافر کافر شعیہ کافر” کے نعرے تو نہیں لکھے ہوتے۔
یہ وہ مناظر ہیں جن سے ہر پاکستانی واقف ہے۔ نگاہیں اٹھا کہ دیکھ لیں تو ہر طرف نفرت کے بیچ بوئے گئے ہیں۔ حکومت اور بالخصوص وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے کہ نفرت کے اس بیچ اور اس کے نتیجے میں اگنے والے پودے کو جڑ سے اکھاڑ دیں لیکن وہ تو بدستور اسے تحفظ فراہم کرنے کی خاطر ان گنت جواز اور بہانے ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔
کوئٹہ شہر میں پچھلے دنوں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد ہم ایک بار پھر انہی مسائل میں الجھ گئے جن میں ہر بار اس طرح کے المناک واقعہ کے پیش آنے کے بعد پیش آنے پر ہوتا ہے۔
دہشت گردی کے اس واقعے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد سمیت بیس شہری ہلاک ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں اس طرح کے واقعات میں نہتے شہری ہلاک نہیں ہوئے ہیں اور اس کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیموں نے قبول نہیں کی ہے۔ تاہم اس بار حکومت نے جس رویے کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تشویش ہے۔حکومت اب دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کو قومیت، زبان ، فرقہ اور رنگ و نسل میں تقسیم کرکے ’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اعلیٰ سرکاری اہل کار ( وزیر داخلہ سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک) اسے انجان بننے کی کوشش کر رہے ہیں جیسا ہمیں پتہ نہیں کہ بلوچستان میں شعیہ اور ہزارہ برادری کے خلاف خون کی ہولی دو دہائیوں سے بے دردی سے جاری ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس تاریخی جبر سے انکاری ہیں اور اس بات پر بضد ہیں کہ ہزار گنجی میں دہشت گردی کے واقعے میں بلوچ بھی تو مرے ہیں، ایف سی والے بھی مرے ہیں؛ پشتون بھی مرے ہیں،راہ گزرے شہری بھی مرے ہیں۔
یہ جواز ہی سرے سے غلط ہے کیونکہ جس تنظیم (دولت ِاسلامیہ) نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی ہے ان کا یہی کہنا ہے کہ ان کا اصل ہدف شیعہ ہی تھے۔ یہ تنظیمیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر بنتی ہیں اور ان کو مذہب کے نام سے راہ فرار مل جاتا ہے۔ وہ مذہب کا نام استعمال کرکے نوجوانوں کو بھرتی کرتی ہیں اور یوں انسانیت کا قتل عام کرنے کے باوجود آسانی سے انصاف کے کٹہرے میں حاضر ہونے سے بچ جاتی ہیں کیونکہ جس حکومت کا کام انھیں کیفر کردار تک پہنچانا ہوتا ہے وہی حکومت ایک طرح سے ہے کہہ کر ان کا دفاع اور تحفظ کرتی ہے کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ انھوں نے نہیں بلکہ غیرملکیوں نے کیا ہے۔
حکومت یہی کہنے پر اکتفا کرتی ہے کہ یہ دہشت ہم میں سے نہیں لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ ہم ہی سے ہیں۔ جب حکومت اس قدر دروغ گوئی سے کام لے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ آرمی چیف، وزیر اعظم یا وزیراعلیٰ تعزیت کے لئے ہزارہ برادری کے در پہ آجائیں؟ جب حکومت ہی سچ پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہو تو حکومتی تحقیقاتی کمیٹیوں کا کیا فائدہ؟ جب حکومت ہی اصل مسئلہ سے چشم پوشی کرے تو ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے بہانے پولیس اور ایف سی کے اہلکاروں کی بھی جانوں کو خطرے میں ڈالنے کا کیا فائدہ؟
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ہلاک شدگان کے خاندانوں میں دو دو لاکھ روپے تقسیم کرنے ہی سے مسئلہ حل ہوگا تو جو ہزارہ افراد اور خاندان زندہ ہیں ان میں بھی ایڈوانس پیسے تقسیم کئے جائیں کیونکہ یہ مسئلہ کا کوئی حل نہیں ۔ آج جو زندہ ہیں کل وہ بھی حکومت کی غفلت، عاقبت نااندیشی کی وجہ سے زندہ نہیں ہونگے۔
اگر ہزارہ قوم کے خلاف سرگرم اس تنظیم کے خلاف بروقت کارروائی ہوتی تو شاید ہزار گنجی میں ایف سی گارڈ مرتا اور نا بلوچ، پشتون یا راہ گیر۔ ہزارہ قوم کے خلاف شروع ہونے والی اس نا ختم ہونے والی جنگ نے پورے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یہ اب محض شیعہ یا ہزارہ کے خلاف جنگ نہیں۔ یہ سب کے خلاف جنگ۔
اگر حکومت اپنے بیانیے میں تبدیلی لانے پر آمادہ نہیں توپھرکیا آرمی چیف یا وزیر اعظم کو بار بار کوئٹہ آکر دہشت گردی سے متاثرہ خانہ دانوں میں چیک تقسیم کرنے سے بہتر نہیں ہے کہ جو ہزارہ زندہ ہیں ان سب میں یہ کہہ کر ایڈوانس چیک تقسیم کریں کہ جو آپ کی قاتل ہیں وہ ہمارے نظریاتی اثاثہ بھی ہیں۔ آپ ہمیں پیارے ہیں لیکن وہ آپ سے زیادہ پیارے ہیں۔ آپ کو ہم لالچ دے کر یہ ڈرا دھمکا کر خاموش کرسکتے ہیں لیکن ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتے کیونکہ ہمیں لگتا کہ ان کا کوئی وجود ہے۔بس چیک لو اور خاموش رہو جسے کچھ ہوا نہیں کیونکہ یہ جو سانحہ ہیش آیا ہے، یہ
کوئی انسان نہیں کرسکتا
کوئی مسلم نہیں کرسکتا
کوئی پاکستانی نہیں کرسکتا
بس بات ختم!۔
اگلے سانحہ پر ملیں گے۔
♦